طاقت کا زعم کیوں

ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ تاریخ فاتحین نے لکھی اور انھوں نے اور ان کی سوچ نے انسان کو ایک عدد میں بدل ڈالا


زاہدہ حنا December 24, 2025

ہر شخص کو مرجانا ہے، یہ ایک ایسا سچ ہے جو انسان کو اپنی پیدائش سے معلوم ہے۔ یہ وہ سچ ہے جس سے نہ تو بادشاہ آزاد ہے اور نہ فقیر۔ پھر یہ طاقت کا زعم کیوں؟ کیوں صدیوں سے انسان یہ بھولے ہوئے ہے کہ زندگی فانی ہے۔ ہر جابر نے خون سے تاریخ لکھی اورطاقت کے نشے میں چور رہا۔ چنگیز خان، ہٹلر، یہ نام تاریخ کی کتابوں میں صرف افراد کے نہیں، ایک ذہنیت کے ہیں۔ اس ذہنیت کے جو یہ سمجھتی ہے کہ زمین، انسان اور وسائل پر قبضہ ہی اصل فتح ہے۔ طاقت کا مطلب ہے انسانوں پہ جنگیں مسلط کرنا۔

یہ سوال محض ماضی کا نہیں، یہ آج کا بھی سوال ہے۔ آج جب دنیا جدید ہتھیاروں، مصنوعی ذہانت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کر چکی ہے تب بھی انسان بھوکا ہے، ننگا ہے، بے گھر ہے۔ اگر اصل لڑائی کرنی ہے تو بھوک اور افلاس سے کیوں نہ کی جائے؟ کیوں نہ طاقت کے زعم کو اس سوال کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے کہ اس نے انسان کوکیا دیا؟ اگر سکندر دنیا فتح کر کے بھی سکون نہ پا سکا، اگر چنگیز خان کی فتوحات کی بدولت صدیوں تک انسانیت کراہتی رہی، اگر ہٹلرکی سوچ نے انسان کوگیس چیمبرز تک پہنچایا تو پھر طاقت کا یہ راستہ آخرکس طرف جاتا ہے؟ اور اس سے کس کی بھلائی ہوئی؟

طاقت ہمیشہ خود کو اخلاقیات کے لبادہ میں پیش کرتی ہے۔کبھی قوم پرستی، کبھی مذہب ،کبھی تہذیب، کبھی ترقی کے نام پہ۔ مگر جب اس لباس کو اتارا جائے تو نیچے وہی پرانی بھوک نظر آتی ہے، قبضے کی بھوک ،منافع کی بھوک، حکمرانی کی بھوک۔ انسان کی بھلائی کے لیے کام کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ اس سوال کا جواب مشکل نہیں، مگر تکلیف دہ ہے اس لیے کہ انسان کی بھلائی طاقت کے کاروبار میں منافع نہیں لاتی۔ بھوکا انسان سوال کرتا ہے اور پھر احتجاج کرتا ہے، بے گھر انسان نظام پر انگلی اٹھاتا ہے اور یہی سوال یہی احتجاج طاقتورکو ناگوار گزرتا ہے۔

 ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ تاریخ فاتحین نے لکھی اور انھوں نے اور ان کی سوچ نے انسان کو ایک عدد میں بدل ڈالا۔ جب انسان عدد بن جائے تو جنگ آسان ہو جاتی ہے قبضہ جائز لگنے لگتا ہے اور ظلم انتظامی فیصلہ بن جاتا ہے، مگر انسان کو اس کے ضمیر نے ہمیشہ اس عدد کے پیچھے چھپا چہرہ تلاش کرنے پہ مجبورکیا ہے۔ اس سوچ اور شعور نے یہ سوال اٹھانے میں مدد کی ہے کہ اگر سب کو مر جانا ہے تو یہ اقتدارکی ہوس کیوں؟

آج کی دنیا میں طاقت کا توازن معاہدوں اورکارپوریشنز سے بنتا ہے۔ قبضہ اب فوجی بوٹ کے ساتھ ساتھ مالیاتی کمپنیوں کے ذریعے ہوتا ہے، مگر نتیجہ وہی ہے انسان کی محرومی۔ کسان کی زمین مزدورکی محنت سب منڈی میں رکھ دیے جاتے ہیں اور پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ ترقی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس کی ترقی؟ اگر ترقی کے بعد بھی بچے بھوکے سوئیں، اگر مزدورکی عزت اجرت میں گم ہوجائے تو یہ کیسی ترقی ہے؟

اصل لڑائی بھوک اور غربت سے کرنی ہے۔ یہ جملہ نعرہ نہیں ہے بلکہ اخلاقی ذمے داری ہے۔ بھوک کوئی قدرتی آفت نہیں یہ سیاسی فیصلہ ہے۔ غربت کوئی حادثہ نہیں، یہ معاشی نظام کا نتیجہ ہے۔ بے گھر ہونا تقدیر نہیں یہ پالیسی ہے۔ جب ہم جنگ کو ان حقائق سے ہٹا کر اسے حب الوطنی کے نعروں میں الجھا دیتے ہیں تو طاقت مسکرا دیتی ہے،کیونکہ طاقت جانتی ہے کہ جب تک غریب آپس میں الجھے رہیں گے، ان پرکوئی سوال نہیں اٹھایا جائے گا۔

انسان کی بھلائی کے لیے طاقت کے تصورکو بدلنا ہوگا۔ طاقت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کتنی زمین پہ قابض ہیں۔ طاقت یہ ہے کہ آپ کتنے پیٹ بھر سکتے ہیں۔ طاقت یہ نہیں کہ آپ کے پاس کتنے ہتھیار ہیں، طاقت یہ ہے کہ آپ کتنے بچوں کو تعلیم دے سکتے ہیں۔ طاقت یہ نہیں کہ آپ کتنے مخالفین کو خاموش کر سکتے ہیں، طاقت یہ ہے کہ آپ کتنی آوازوں کو بولنے کا حق دے سکتے ہیں۔

وسائل پر حق ان کا ہونا چاہیے جو محنت کریں نہ ان کا جن کے پاس طاقت ہو۔ ریاست کا کام ہے کہ وہ عوام کا خیال کرے، ان کی ترقی اور بہتری کا سوچے۔ یہ سوچ کسی ایک ملک تک محدود نہیں، یہ ایک عالمگیر سوچ ہے۔ کیونکہ بھوک کی کوئی قومیت نہیں، غربت کا کوئی مذہب نہیں، درد کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔

ہمیں تاریخ کے ان ناموں کو یاد کرتے ہوئے، ایک اور سوال بھی پوچھنا ہوگا اگر ان سب نے انسان کی بھلائی کے لیے کام کیا ہوتا، تو آج دنیا کیسی ہوتی؟ یقینی طور پہ آج سے بہتر حال میں ہوتی۔ عظمت کا تصور بدلنے کی ضرورت ہے۔ عظمت وہ نہیں جو کتابوں میں سنہرے حروف سے لکھی جائے عظمت وہ ہے جو کسی ماں کے چہرے پر اطمینان کی صورت میں ہو۔ کسی مزدور کی تھکن کو کم کرے۔ کسی نوجوان کی آنکھ میں بسے خواب بکھرنے نہ پائیں۔ یہ ہے سچی اور اصلی عظمت۔

ہر شخص کو مر جانا ہے یہ جملہ ہمیں مایوس کرنے کے لیے نہیں، بلکہ حقیقت کے ادراک کے لیے ہے۔ حقیقت کو سمجھنا وہ مقام ہے جہاں سے انسان کی بھلائی کا راستہ شروع ہوتا ہے۔ جہاں طاقت گھٹتی ہے اور ذمے داری بڑھتی ہے، اگر ہم واقعی لڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ارد گرد موجود ظلم اور ناانصافی سے لڑنا چاہیے۔ ہماری لڑائی، بھوک اور بیماری سے ہونی چاہیے نہ کہ ہم انسانوں کو لڑا کر عظمت کی اور طاقت کی مسند پر بیٹھ جائیں۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ طاقت کا زعم صرف ریاست یا حکمرانوں تک محدود نہیں رہتا، یہ سوچ آہستہ آہستہ سماج کے ہر درجے میں سرایت کر جاتی ہے۔ جب انسان اپنے سے کمزورکوکچلنے کو حق سمجھنے لگے تو وہ بھی اسی ذہنیت کا حصہ بن جاتا ہے جس پر وہ خود تنقید کرتا ہے۔

اصل تبدیلی تب آتی ہے جب ہم اپنی روزمرہ زندگی میں انصاف برداشت اور شراکت کو اختیار کریں،کیونکہ جو سماج اندر سے غیر منصف ہو وہ بالآخر تباہ ہو جاتا ہے۔ طاقت کا اصل امتحان یہی ہے کہ وہ کمزور کو سہارا دے، نہ کہ اسے روند ڈالے۔

مقبول خبریں