لاہور:
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہمیں اہل اقتدار عام لوگ نہیں بلکہ انتہائی صاحب کردار اہل اقتدار چاہئیں، اب عمر خطاب تو نہیں آسکتے مگر عمر ثانی تو آسکتے ہیں جبکہ بنیادی حقوق کا تحفظ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں کا کام ہے جنہوں نے آئین کی بالادستی کا حلف اٹھا رکھا ہے۔
لاہور میں دیوانی انصاف کی نقاب کشائی کے موضوع پر کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی قوانین وجود میں آگئے، قانون اور اس کے اطلاق کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خدا نے شیطان کو بھی حق سماعت دیا ہے، زندگی اس کائنات میں اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے، انسانی زندگی کے وجود کے ساتھ ہی اللہ نے انسانوں کوتین حقوق بھی دے دیے ہیں، پنگوڑے سے لے کر وفات تک زندگی کے بنیادی حقوق ریاست کی ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسپتالوں کے دورے میں کسی کو ورکنگ حالت میں نہیں دیکھا، لاکھوں کروڑوں روپے لگا کر بھی یہ چیزیں قابل استعمال نہ ہوں تو کیا زندگی ہے، نظام کو قانون کی حکمرانی ہی منطم کرتی ہے۔
سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ہی ادارہ حقوق کا تحفظ کرنے کا پابند ہے، آئین کےآرٹیکل 7 میں واضح ہے، جسے سب کو پڑھنا چاہیے، کفر کا معاشرہ تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا، چرچل نےجنگ کے درمیان پوچھا تھا کہ ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں، یہ وہ فقرہ تھا جو اپنے اندر بہت گہرے اثرات رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیا پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم ہے، اگر قانون کی حکمرانی نہیں ہے تو سب کچھ بے کار ہے، اس ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے آزادی اظہار رائے ضروری ہے، ہمارے نبی کا قول ہے کہ برائی کو برائی کہو اور کم از کم دل میں برا جانو۔
ثاقب نثار نے کہا کہ زندگی میں انسان اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتا ہے، کیا ہم آنے والی نسل کو بچانے کےلیے وہ اقدامات کر رہے ہیں، ہماری آبادی آنے والے برسوں میں 50 کروڑ تک پہنچ جائے گی، ہمارا ماحول آلودہ ترین ہے اور ہم پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اہل اقتدار عام لوگ نہیں چاہئیں، ہمیں انتہائی صاحب کردار اہل اقتدار چاہئیں، اب عمر خطاب تو نہیں آسکتے مگر عمر ثانی تو آسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے سب جمہوریت پر متفق ہیں، جج کا امتحان ہی جمہوریت میں ہوتا ہے، اگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی تو کس نے اس کا تحفظ کرنا ہے، یہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کےججوں کا کام ہے اورانہی ججوں نے آئین کی بالادستی کا حلف اٹھا رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام مغربی دنیا نے بنیادی حقوق کے تصوارات اسلام سے لیے، شوریٰ کا نظام بھی ہمارے دین اسلام سے لیا گیا، جمہوریت کی بنیاد ہی شوریٰ ہے، اگر جمہوریت کا وجود نہیں ہے تو پھر آئین کا وجود نہیں ہے، اگر آئین کا وجود نہیں ہے تو پھر کوئی ریاست دنیا میں کیسے قائم رہ سکتی ہے۔