دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیے کا فروغ

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا سلسلہ نہ رکنے کا نام لے رہا ہے اور نہ ہی تھمنے کے آثار نظر آتے ہیں


ایڈیٹوریل December 25, 2025

خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں دہشت گردوں نے پولیس موبائل پر حملہ کردیا جس سے پانچ اہلکار شہید ہوگئے، فائرنگ سے گاڑی بھی مکمل تباہ ہوگئی، واقعہ کے بعد سیکیورٹی فورسز، سی ٹی ڈی اور پولیس مشترکہ آپریشن کے دوران پولیس موبائل پر حملہ ملوث آٹھ دہشت گرد ہلاک کر دیے گئے۔

 پاکستان ایک ایسے دوراہے پرکھڑا ہے جہاں دہشت گردی ایک بار پھر نہ صرف ہمارے اجتماعی شعور کو جھنجھوڑ رہی ہے بلکہ قومی سلامتی، داخلی استحکام اور معاشی بحالی کے تمام دعوؤں کو چیلنج کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا سلسلہ نہ رکنے کا نام لے رہا ہے اور نہ ہی تھمنے کے آثار نظر آتے ہیں۔ کبھی سرحدی علاقوں میں حملے ہوتے ہیں، کبھی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی معصوم شہری اس آگ کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے جوانوں نے مادرِ وطن کے تحفظ کے لیے اپنا خون نچھاور کیا، جامِ شہادت نوش کیا اور اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر دشمن کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھایا۔ ان قربانیوں کی عظمت کو نہ تو الفاظ میں سمیٹا جا سکتا ہے اور نہ ہی وقت کی گرد انھیں ماند کر سکتی ہے، مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جہاں ایک طرف ہمارے جوان میدان میں سینہ سپر ہیں، وہیں دوسری جانب ریاستی نظم و نسق کے کئی اہم ستون اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

صوبائی حکومتوں کا کردار اس پورے منظر نامے میں سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ امن و امان کا قیام آئینی طور پر صوبوں کی ذمے داری ہے، مگر عملی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو پولیس نظام کو اس حد تک مضبوط کیا گیا کہ وہ جدید چیلنجز سے نمٹ سکے اور نہ ہی انٹیلی جنس کے صوبائی اور مقامی ڈھانچوں کو مؤثر بنایا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ دہشت گرد نیٹ ورکس دوبارہ منظم ہو رہے ہیں، سہولت کار کھلے عام یا پردے کے پیچھے سرگرم ہیں اور ریاستی رٹ کمزور دکھائی دیتی ہے۔

مقامی سہولت کاروں کا کردار دہشت گردی کے پھیلاؤ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، مگر ہم آج تک اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ سہولت کار ہر رنگ، ہر روپ اور ہر مذہبی لبادے میں موجود ہیں۔ کوئی دین کے نام پر نوجوانوں کے ذہن مسموم کر رہا ہے تو کوئی قومیت یا محرومی کے نام پر نفرت کا بیج بو رہا ہے۔ ان کی منفی سوچ اور بیمار ذہنیت انھیں اپنے ہی وطن کے خلاف سازشوں پر آمادہ کرتی ہے اور یہی وہ داخلی کمزوری ہے جس سے دشمن قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان، جو دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاقِ رائے کی علامت تھا، آج بھی مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔ اس پلان کے کئی نکات محض کاغذی کارروائی تک محدود رہ گئے ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی، نفرت انگیز تقاریر کا خاتمہ، دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام، مدارس کی اصلاحات اور عدالتی نظام میں تیزی جیسے اقدامات وہ ستون تھے جن پر ایک محفوظ پاکستان کی عمارت کھڑی ہونی تھی، مگر بدقسمتی سے سیاسی مصلحتوں، انتظامی کمزوریوں اور بعض اوقات دانستہ غفلت نے اس عمل کو سست اور غیر مؤثر بنا دیا۔

علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کو اس وقت ایک نہایت پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے۔ بھارت، جو ماضی میں بھی پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ کا سہارا لیتا رہا ہے، ایک بار پھر خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ مئی میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے اس نے افغانستان کو پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کا رویہ پاکستان کے لیے نہایت تشویش ناک ہے۔ یہ حکومت نہ صرف پاکستان دشمن عناصر کو اپنی سرزمین پر پناہ گاہیں فراہم کر رہی ہے بلکہ انھیں پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے اکساتی بھی ہے۔

یہ رویہ احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے، کیونکہ پاکستان نے مشکل ترین اوقات میں افغان عوام کی میزبانی کی، لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی اور عالمی دباؤ کے باوجود انسانی ہمدردی کا دامن نہیں چھوڑا۔ اس کے باوجود آج ہمیں سرحد پار سے دہشت گردی کا سامنا ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے مستقل خطرہ بن چکی ہے۔افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ، چاہے وہ کسی بھی نام یا نظریے کے تحت سرگرم ہوں، درحقیقت ایک ایسی آگ ہیں جو صرف ایک ملک تک محدود نہیں رہ سکتی۔ ان گروہوں کی سرگرمیاں وسطی ایشیا، چین، ایران اور دیگر پڑوسی ممالک کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہیں، مگر افسوس کہ عالمی طاقتیں اس سنگین صورتحال کے باوجود اپنا کردار درست طور پر ادا نہیں کر رہیں۔ کہیں مفادات کی سیاست ہے تو کہیں دہرا معیار، جس کے نتیجے میں دہشت گردی کے خلاف عالمی بیانیہ کمزور پڑ جاتا ہے، اگر عالمی برادری واقعی امن چاہتی ہے تو اسے افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کے لیے سنجیدہ اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ محض بیانات اور قراردادیں اس مسئلے کا حل نہیں۔

پاکستان کے اندرونی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف بندوق اور بارود سے نہیں جیتی جا سکتی۔ اس کے لیے ایک ہمہ جہت حکمت عملی درکار ہے، جس میں سیکیورٹی اقدامات کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام، معاشی بہتری، سماجی انصاف اور فکری اصلاحات شامل ہوں۔ سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ دشمن اب بھی متحرک ہے اور ہمارے عزم کو آزمانا چاہتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ کئی بڑے نیٹ ورکس توڑے گئے، اہم کمانڈرز کو انجام تک پہنچایا گیا اور متعدد علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کیا گیا۔ یہ کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر نیت صاف ہو اور حکمت عملی واضح ہو تو دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے۔اس تناظر میں ایک مربوط اور فعال میکنزم کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔

ایسا میکنزم جو محض ردِ عمل پر مبنی نہ ہو بلکہ پیشگی اقدامات، مؤثر انٹیلی جنس شیئرنگ، فوری انصاف اور سخت احتساب پر مشتمل ہو۔ دہشت گردی کے مقدمات کو برسوں لٹکانا، گواہوں کا عدم تحفظ اور قانونی سقم وہ عوامل ہیں جو دہشت گردوں کے حوصلے بلند کرتے ہیں۔ ہمیں ایک ایسا نظام درکار ہے جہاں دہشت گردی میں ملوث ہر فرد، چاہے وہ براہِ راست کارروائی میں شامل ہو یا پسِ پردہ سہولت کاری کر رہا ہو، قانون کی گرفت سے بچ نہ سکے۔

 میڈیا، تعلیمی اداروں اور مذہبی قیادت کا کردار بھی اس جنگ میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ دہشت گردوں کے بیانیے کو بلاوجہ کوریج دے کر انھیں شہرت فراہم کرنے سے گریز کرنا ہو گا۔ تعلیمی اداروں کو نوجوانوں میں تنقیدی سوچ، برداشت اور آئین سے وفاداری کا شعور اجاگر کرنا ہو گا۔ مذہبی قیادت پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دین کی اصل روح کو اجاگر کرے اور تشدد کے نام پر ہونے والی ہر حرکت کی دوٹوک مذمت کرے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیاسی اتفاقِ رائے ناگزیر ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن، سب کو مل بیٹھ کر ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا ہو گا اور اس پر مستقل مزاجی سے عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔ بار بار پالیسیوں کا بدلنا، ادارہ جاتی تسلسل کا فقدان اور ذاتی مفادات کا غلبہ اس جنگ کو کمزور کرتا ہے۔

پاکستان ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔ ہزاروں جانیں ضایع ہو چکی ہیں، معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے اور عالمی سطح پر ملک کا تشخص متاثر ہوا ہے۔ اس کے باوجود یہ قوم بارہا ثابت کر چکی ہے کہ وہ مشکلات سے گھبرا کر پیچھے ہٹنے والی نہیں۔ ہمیں ایک بار پھر اسی عزم، اسی یکجہتی اور اسی حب الوطنی کی ضرورت ہے جو ماضی میں ہمیں مشکل ترین حالات سے نکال لائی۔ دشمن کی سازشیں جتنی بھی گہری ہوں، اگر ہم اندر سے مضبوط ہوں، اگر ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ بحال ہو جائے اور اگر قانون کی عملداری بلاامتیاز قائم ہو جائے تو کوئی طاقت ہمیں عدم استحکام سے دوچار نہیں کر سکتی۔

آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فیصلہ کن مرحلہ ابھی باقی ہے۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد ہے جس میں وقتی کامیابیوں پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنا ہو گا، اپنی پالیسیوں کا ازسر ِنو جائزہ لینا ہو گا اور ایک ایسے قومی بیانیے کو فروغ دینا ہوگا جو نفرت کے بجائے امید، تقسیم کے بجائے اتحاد اور تشدد کے بجائے امن کی بات کرے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک محفوظ، مستحکم اور باوقار پاکستان کی طرف لے جا سکتا ہے اور یہی ہمارے شہداء کے خون کا اصل تقاضا بھی ہے۔

مقبول خبریں