انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کا خاتمہ

محض الزام تراشیوں کی بنیاد پر مسائل کا حل ممکن نہیں اور اس سے مزید شدت پسندی پر مبنی رجحانات جڑ پکڑیں گے


سلمان عابد December 25, 2025
[email protected]

پاکستان کی ریاست کا ایک بڑاچیلنج انتہا پسندی یا شدت پسندی پر مبنی رجحانات کا ہے۔اس رجحان نے معاشرے سے بات چیت یا مکالمہ کے بجائے انتہا پسندانہ سوچ اور فکر کو فروغ دیا ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ مجموعی طور پر اس بیانیہ یا سوچ اور فکر کو تقویت دی جارہی ہے کہ ہمارے مسائل کا حل بات چیت یا مکالمہ کے بجائے شدت پسندی یا طاقت کے استعمال میں ہے۔

ایک دوسرے کی سوچ،فکر یا رائے کو احترام دینے کا عمل کمزور ہوتا جارہا ہے اور مجموعی طور پر معاشرے کے تمام طبقات اپنی بات ،سوچ ،فکرا ور خیالات کو دوسروں پر عملی طور پر مسلط کرنے کی حکمت کا حصہ بن گئے ہیں۔ سیاسی ،سماجی اور مذہبی اختلاف یا تنقید کو ہم نے دشمنی کی بنیاد پر دیکھنے کی روش اختیار کرلی ہے یا ہم اسی کو اپنے مسائل کا حل سمجھتے ہیں ۔ایک دوسرے کے خیالات کو قبول کرنا،برداشت کرنا ، احترام کرنا اور باہمی دوستی اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے بجائے ہم اپنے مخالف آوازوں کا مقابلہ بھی طاقت ہی کے انداز میں کرنا چاہتے ہیں ۔یہ عمل محض ناخواندہ سطح کے لوگوں تک محدود نہیں بلکہ معاشرے کے پڑھے لکھے افراد یا طبقوں کے مزاج میں بھی انتہا پسندی یا شدت پسندی کے رجحانات بڑھ گئے ہیں جو زیادہ خطرناک عمل کی نشاندہی کرتے ہیں ۔

ان حالات میں ان مسائل کا مقابلہ اکیلی ریاست، حکومت یا کوئی فرد واحد یا ادارہ نہیں کرسکتا۔  یقینی طور پر اس کے لیے ریاست،حکومت اور معاشرے کے دیگر طبقات اور اداروں کے درمیان باہمی سوچ اور فکر میں اعتماد سازی اور مشترکہ حکمت عملی کی بنیاد پر یہ کام کسی نتیجہ کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔نئی نسل پر یہ طعنہ تو دیا جاتا ہے کہ وہ انتہا پسندی یا شدت پسندی پر مبنی رجحانات میں بہت آگے تک بڑھ گئی ہے اور خاص طور پر ڈیجیٹل دنیا اس کا بڑا ہتھیار ہے جہاں سے انتہا پسندی پر مبنی بیانیہ کو طاقت دی جاتی ہے ۔

پنجاب کی حکومت نے اس مسئلہ پر ایک سنجیدہ حکمت عملی اختیار کی اور نئی نسل میں انتہا پسندی یا شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی نسل میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سمیت عورتوں کی اس عمل میں موثر شمولیت اور مدارس کی سطح پر اصلاحات پر توجہ دینے کے لیے ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی سطح پر باقاعدہ ایک ادارہ سیکریٹری داخلہ احمد جاوید قاضی کی سربراہی میں قائم کیا ہے جو ان اہم سنجیدہ اور حساس معاملات میں نہ صرف تمام فریقین کو ساتھ ملا کر موثر حکمت عملی کو ترتیب دے گا بلکہ اس حکمت عملی پر جامع ،شفاف طریقے سے عملدرآمد کے نظام پر توجہ دے گا۔سیکریٹری داخلہ پنجاب احمد جاوید قاضی ایک اعلیٰ بیوروکریٹ اور متحرک و فعال حیثیت میں کام کی صلاحیت رکھتے ہیں اوران اہم معاملات کے فہم اور اس سے جڑے مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہیں ۔اسی طرح ڈاکٹر احمد خاور شہزاد جو خود بھی اسی ادارے میں اس منصوبے کو عملی بنیادوں پر چلارہے ہیں، وہ بھی ان تمام معاملات کو بہتر فہم رکھتے ہیں ۔

ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی جانب سے انتہا پسندی یا شدت پسندی کی روک تھام کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی ،حکموت عملی کو وضع کرنے کے لیے لاہور میں ایک اہم دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جو پنجاب سینٹر آف ایکسیلینس اینڈ کاونٹرننگ انتہا پسندی یعنی سی او ایاینڈ سی وی ای کے ذیر اہتمام تھا۔اس ورکشاپ کے افتتائی اور اختتامی سیشن سے اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان اور وزیر صحت خواجہ سلمان ر فیق نے کلیدی خطاب کیا ۔اسی طرح خیبرپختونخواہ کے سابق وزیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف،قانونی ماہر سید حسین حیدر،فضل الرحمن اسپیشل سیکریٹری ہوم، سیکریٹری داخلہ احمد جاوید قاضی ،سید حیدر علی گیلانی ،سہیل ریاض،شہزادہ سلطان ایڈیشنل آئی جی پولیس،مسرت قدیم،میڈیا سے منصور اعظم قاضی جو کے پی کے حکومت کی جانب سے اس منصوبے کے ایڈوائزر بھی ہیں ،ایڈیشنل ڈی آئی جی کامران عادل،سمعیہ راحیل قاضی ،ڈاکٹر ارم خالد،ڈاکٹر تہمینہ اسلم رانجھا،ڈاکٹر نمرا اسحاق ،ڈی جی پنجاب محمد شاہد اقبال جو پوربیشن ہوم ڈیپارٹمنٹ نے مختلف سیشن میں اہم گفتگو اور اس میں موضوع کی بنیاد پر اہم نکات اٹھائے ،اسی طرح اس ورکشاپ میں مستقبل کے حوالے سے ایک جامع حکمت عملی بھی ترتیب دی گئی ۔اہم بات یہ تھی کہ تمام فریقین کی رائے سے بحث ومباحثہ کو آگے بڑھایاگیا اور خاص طور پر کے پی کے سے بیرسٹر محمد سیف کی گفتگو کمال کی تھی اور انھوں نے کے پی کے حکومت کی بعض ناکامیوں کا بھی ذکر کیا اور قومی بیانیہ کی جنگ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناکامی پر بھی روشنی ڈالی۔

راقم نے اپنی گفتگو میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کی حکمت عملیوں کا تجزیہ کیا اور میرا موقف تھا کہ ہماری اس مسئلہ سے نمٹنے کی بیشتر حکمت عملی ردعمل کی سیاست یا حکمت عملی سے جڑی ہوئی ہے ۔اسی طرح گورننس کے نظام میں جو خرابیاں ہیں اور جن کا تعلق براہ راست نوجوان نسل سے ہے، اس پر موثر حکمت عملی ترتیب دے کر ہم شدت پسندی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔خاص طور پر آج کی ڈیجیٹل دنیا میں جس طرح سے نئی نسل سرگرم ہوئی ہے اور ان کو جو مسائل درپیش ہے، ان کا علاج تلاش کیا جانا چاہیے۔ہم نئی نسل سے رواداری کے طرز عمل کی توقع توکرتے ہیں لیکن ان کے مسائل کے حل میں توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔یہ صدی سوالات کی صدی ہے اور ہمیں نئی نسل کے جذباتی اور تلخ سوالوں کو بھی ٹھنڈے مزاج سے سننا بھی ہوگا اور ہمیں اپنے اندر ان کو سننے کا حوصلہ بھی پیدا کرنا ہوگا۔

محض الزام تراشیوں کی بنیاد پر مسائل کا حل ممکن نہیں اور اس سے مزید شدت پسندی پر مبنی رجحانات جڑ پکڑیں گے۔اچھی بات یہ ہونی چاہیے کہ ہم ان مسائل کا حل محض طاقت کی زبان کی سطح پر تلاش نہ کریں بلکہ اس کا سیاسی اور سماجی حل بھی تلاش کرنا ہوگا۔کیونکہ انتہا پسندی اور شدت پسندی محض مذہبی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اب تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم اور محرومی کی سیاست نے بھی نئی نسل میں سخت ردعمل کی سیاست کو پیدا کیا ہے ۔یہ سمجھنا ہوگا کہ نئی نسل میں رواداری اور برداشت کی سوچ اور فکر کو پیدا کرنے کے لیے ہمیں روائتی طور طریقوں سے باہر نکلنا ہوگا۔ اسی طرح محض قانون سازی یا پالیسی بنانا اگرچہ اہمیت رکھتا ہے مگر جب تک ہم لوگوں کی فکری تربیت پر توجہ نہیں دیں گے اور لوگوں کے مسائل کو جدید بنیادوں پر حل نہیں کریں گے تو محض قانون سازی کچھ نہیں کرسکے گی ۔نئی نسل کو دشمن سمجھنے کے بجائے اپنے ساتھ ملانا ہوگا اور ان کی سوچ اور فکر کو قبول کرکے آگے بڑھنے کی حکمت عملی ہی کارگر ہوسکے گی۔کیونکہ ہمارے یہاں حکومتیں زیادہ تر توجہ قانون سازی اور پالیسی پر دیتی ہیں ۔

لیکن ان کی عملی طور پر سیاسی کمٹمنٹ مالی وسائل کی فراہمی میں کمزور نظر آتی ہے۔ریاست،حکومت ،ادارے اور معاشرہ مجموعی طور پر جب اس طرز کے حساس معاملات پر بڑی سیاسی ،سماجی ،انتظامی ،مالی اور قانونی سطح کی سرمایہ کرتی ہے اور اپنے گورننس کے نظام میںسب اداروں کو جوابدہی میں لاکر کھڑا کرتا ہے تواصلاح کا علاج بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔لیکن اس علاج کی تلاش میں کوئی شارٹ کٹ نہیں اور ہمیں مستقل بنیادوں پر لانگ ٹرم ،مڈ ٹرم اور شارٹ ٹرم منصوبہ بندی پر توجہ دینی ہوگی اور بالخصوص انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خاتمے میں وفاقی ،صوبائی اور مقامی حکومتوں کے پالیسی سازوں کو گورننس کے نظام کی بہتری اور ان میں موثر اور شفاف نگرانی اور باہمی رابطوں کو فوقیت دینی ہوگی ۔محض الزام تراشیوں اور سیاسی تقسیم کی بنیاد پر اختیار کی جانے والی حکمت عملی ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکے گی ۔اس لیے اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر زیادہ گہرائی سے غوروفکرکرنے کی ضرورت ہے۔

مقبول خبریں