اردو میں انگریزی سے مستعار ذخیرہ الفاظ میں شمسی یا عیسوی تقویم Gregorian calendar) ( کے مہینوں کے نام شاید سب سے نمایاں ہیں کہ ہر خاص وعام انہی کا استعمال حسبِ ضرورت وحسبِ منشا کرتا ہے۔ ہم ان دنوں دسمبر کی سردیوں سے محظوظ ہورہے ہیں۔ یہ لفظ انگریزی میں ڈی۔سیم۔بر ہے اور جب ہم نے اِسے’’اُردوا ‘‘ لیا تو اَب اس کا تلفظ بھی ہماری زبان کے روزمرّہ کے مطابق دِسَم۔بر صحیح ہے۔
اگر آپ اس نام کی وجہ تسمیہ جاننا چاہیں تو شاید آپ کو حیرت ہوکہ اِس لاطینی الاصل نام کا مطلب ہے، ’دسواں مہینا‘۔ اب یہ تو بارہواں مہینا ہوتا ہے پھر نام ایسا کیوں؟ اصل میں زمانہ قدیم میں (غالباً 750ق۔م میں) رومی /لاطینی تقویم میں یہ دسواں مہینا ہی تھا۔ مابعد جب Gregorian calendar ترتیب دیا گیا تو اِسے بارہواں نمبر دے دیا گیا۔ شِمالی نصف کُرّے (Northern Hemisphere) میں یہ مہینا سردی کے آغاز سے مخصوص ہے جبکہ جَنوبی نصف کُرّے (Southern Hemisphere) میں دسمبر سے موسم گرما شروع ہوتا ہے۔ ویسے تو کرسمس کا تہوار اِس مہینے سے مخصوص ہے مگر ’’مشرقی عیسائیت‘‘ کے مراکز میں یہ دن سات جنوری کو منایا جاتا ہے۔ مزید دل چسپ نکتہ یہ ہے کہ یہ دن اصل میں دیومالا کے اعتبار سے ’سورج دیوتا‘ کی پیدائش کا دن ہے۔ دیگر اہم تہواروں میں بُدھ مَت کا بودھی دن (Bodhi Day)، یہودیت کا ہنوکا [Hanukkah] (نومبر تا دسمبر) اور افریقی/سیاہ فام نسل کا کُوانزا (Kwanzaa)شامل ہیں۔ مؤخر الذکر کوئی مذہبی نہیں بلکہ ثقافتی تہوار ہے۔
اُسے کہنا دسمبر آگیا ہے......یہ مصرع پچھلے کئی سال سے سوشل میڈیا کے توسط سے ہمارے حواس پر طاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کس نے کہا، کس سے کہا اور ہم کیوں کہیں؟ خود کہہ دے، بتادے۔ آج کل تو اظہارِمحبت ونفرت کے ذرایع اور مواقع اس قدر زیادہ اور ہمہ وقت دستیاب ہیں کہ کسی کو کسی سے بھی کچھ کہنے سننے کے لیے تمہید کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ اچھا ازراہِ تفنن تو مجھ سمیت بہت لوگوں نے اس مصرع کو ہدفِ تنقید بنایا، مگر ذرا سنجیدگی سے کام لیں تو عرض کروں کہ یہ نظم ہمارے ایک معتبر شاعر جناب عرش صدیقی مرحوم (سکنہ ملتان) کی یادگار ہے:
’’اُسے کہنا‘‘ نظم
شاعر: عرش صدیقی
اُسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس، اک اور ماضی کی گپھا میں ڈوب جائے گا
اُسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سوجائے گا جسموں میں، نہ جائے گا
اُسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کے کہُرے دیواروں میں لرزاں ہیں
اُسے کہنا، شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور اُن پر برف کی چادر بِچھی ہے
اُسے کہنا، اگر سورج نہ نکلے گا
اُسے کہنا کہ لوٹ آئے
یہ منفرد نظم ایک کتاب ’منتخب شاہکار نظموں کا البم‘ میں شامل ہے جس کے مرتب اپنے وقت کے مشہور شاعر جناب منور جمیل تھے۔ (منورجمیل صاحب کے ساتھ محض اتفاق یا سُوئے اتفاق ہے کہ اُن کا نام ’کسی‘ اور حوالے سے زیادہ مشہور ہوگیا) ۔
دسمبر سے متعلق شاعری کوئی باقاعدہ یا باضابطہ صنف تو نہیں، مگر نامعلوم کیا بات ہے کہ ہر کس وناکس، شاعر وناشاعر، متشاعر، حتیٰ کہ سوشل میڈیا کے ’شوقیہ‘ اہل قلم بھی اس مہینے کو اپنی طبع آزمائی سے متأثر کیے بغیر نہیں رہتے۔ اس ’فہرست ِ عاشقاں‘۔ یا۔’’فہرستِ شوقیہ شعرگویاں‘‘ میں خواتین کا بھی برابر کا حصہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ ’محبت زدہ‘ ۔یا۔’محبت رسیدہ ‘ (بقول صباؔ اکبرآبادی) ہیں تو کیا ضروری ہے کہ اس ’المیے‘ کا اعلان (گیارہ ماہ چُپ رہ کر) دسمبر ہی میں کیا جائے؟ ویسے سوال تو بہت سارے ہیں، مثلاً :
ا)۔ کیا ہر ’دسمبر‘ میں یہ عمل دُہرانا، ضروری۔یا۔ناگزیر ہے؟ کبھی ناغہ نہیں ہوسکتا؟
ب)۔ کیا یہ ضروری ہے کہ اپنی محبت کا دُکھڑا، فیس بک اور دیگر ذرایع سماجی ابلاغ ہی پر رویا جائے اور اُس کم بخت کو براہ ِ راست نہ سُنایا جائے (بلکہ کھُل کر نہ سُنایا جائے) جو درحقیقت ذمے دار (یا انڈین ٹی وی کی بولی ٹھولی میں آپ کا گناہگار) ہے؟
ج)۔ باقی گیارہ مہینوں میں ’قبرستان‘ جیسا سنّاٹا کیوں طاری رہتا ہے؟
کچھ عرصے سے ایک نئی اصطلاح یا ترکیب بھی ہماری معلومات میں آئی: ’دسمبری شاعری ‘ اور اسی طرح ’دسمبری شاعر‘۔ اہلِ ذوق نے اسے نقل کرتے کرتے استفسار کیا کہ آیا یہ ترکیب ازروئے قواعد یا لسانی بنیاد پر صحیح بھی ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جب ’دسمبر‘ اُردو لفظ ہوگیا تو اَب ہم اردووالے اُس کے ساتھ کوئی بھی مناسب سلوک کرسکتے ہیں، البتہ ڈی۔سیم ۔بر کو براہ کرم نہ چھیڑا جائے۔ {ہم تو وہ لوگ ہیں جو فرنگی کی زبان کی ایسی تیسی (انڈین Slang میں ’واٹ‘ ) کردیتے ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں دن رات دیکھنے سُننے کو ملتی ہیں، جیسے یار ’’سی ۔ڈیاں‘‘ (CDs) بنادو، کلائنٹ نے اوکے دے دیا ہے; بات یہ ہے کہ اگلا تو ’’ڈے ٹیں‘‘ (Dates)پر ’’ڈے ٹیں‘‘ دے رہا ہے، مگر ہم اُدھر نہیں جارہے; پلیز فُلاں فُلاں ایڈ (Ad=Advertisement) کی ’’پے مینٹیں‘‘ (Payments) بھیج دیں۔;’’ری۔سیٹیں ‘‘ (Receipts)ن ہیں مل رہیں، اب کیا کریں؟ ; ’’بینکیں‘‘ (Banks) تو ساری کھُلی ہیں۔ وغیرہ}
لسانی اصول کے تحت، دسمبر سے ’دسمبری‘ بنانا صحیح ہے اور یہ ہم اُردو گونیز اُردو داں لوگوں کے لیے رَوا ہے۔ (یہاں روانی میں ’جائز‘ ہی آتا ہے، مگر ’جائز‘ تو شرعی اصطلاح ہے، ہم کوئی شرعی نہیں، بلکہ لسانی بات کررہے ہیں)۔
’دسمبری شاعری‘ کے علاوہ کچھ لوگ ’دسمبری نثر‘ بھی بڑے شوق سے لکھتے ہیں۔ ہمارے دوست محمد عثمان جامعی صاحب کے پاس کچھ وقت تھا تو اُنھوں نے یہی کام کیا اور دوسروں کی نئی راہ دِکھائی۔ ایک نظر اُن کی نگارش بعنوان’’ دسمبری شاعری‘‘ کے اس اقتباس پر ڈالیں:
’’ہم اپنی ہمدرد اور رِضاکارانہ فطرت کے باعث ’اسے کہنا دسمبر آگیا ہے‘ کا فریضہ ادا کرنے کے لیے دل وجان سے تیار رہتے ہیں اور کہنے والے سے پوچھتے بھی رہتے ہیں کہ بھیا! کسے کہنا ہے؟ نام پتا بتاؤ، ہم خود جاکر اطلاع دیں گے کہ ’بی بی! ایک راز کی بات بتاویں۔ وہ کہے گی ’بکو‘، ہم سرگوشی میں اطلاع دیں گے، اُس نے کہا ہے، دسمبر آگیا ہے، اسی لیے سردی بڑھ گئی ہے اور تم کپکپا رہی ہو۔ اب کرو یہ کہ بکسوں سے لحاف نکالو، الماریاں کھنگال کر سوئیٹر برآمد کرو، کافی پیو، مونگ پھلی کھاؤ، گاجر کا حلوہ بناؤ اور گرم پانی سے نہایا کرو۔‘ یقیناً یہ سنتے ہی وہ اُچھل پڑے گی، ساتھ ہی لڑ پڑے گی۔ ’اُس سے کہنا، دسمبر کب آیا، پہلے کیوں نہیں بتایا، اب چلا جائے تو وقت پر بتادینا‘۔‘‘
کہیے قارئین کرام! مزہ آیا کہ نہیں؟
اب دسمبری شاعری کے کچھ نمونے پیشِ خدمت ہیں:
تیس دن تک اسی دیوار پہ لٹکے گا یہ عکس
ختم اک دن میں دسمبر نہیں ہونے والا
(دانیال طریر)
……………
کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
کہیں بکھرتی ہوئی دُھول میں سوال ملیں
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرُصتیں ہمیں شاید، نہ اگلے سال ملیں
(خالد شریف)
……………
یہ وہی شاعر ہیں جن کا ایک شعر ضرب المَثَل بن چکا ہے:
بِچھڑا کچھ اِس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو وِیران کرگیا
……………
غیرممکن ہے تیرے غم کو منجمد کر دے
رگوں میں خون جماتا یہ دسمبر، جاناں
(عنبرین خان)
……………
یوں تو چاہت میں نہاں، جون کی حدّت ہے مگر
سرد لہجے میں دسمبر کا اثر لگتا ہے
(پریا تابیتا)
محسن ؔ نقوی کی ایک نظم بعنوان ’’دسمبر مجھے راس نہیں آتا‘‘ بھی انٹرنیٹ کی زینت ہے۔
ہمارے مشّاق سخنور فیس بک دوست جناب عباس عدیم قریشی نے اِمسال کوئی نئی ’دسمبری شاعری‘ فیس بُک وغیرہ پر ’نمودار‘ نہ ہوتے دیکھ کر کہا کہ ’’اس مرتبہ تو دسمبر تقریباً نصف گزر چکا ہے مگر دسمبری شاعری دیکھنا نصیب نہیں ہوئی۔ لگتا ہے اس مرتبہ خود شاعر ہی منجمد ہوگئے ہیں بیچارے‘‘۔ تِس پر اُن کے حلقہ بگوش حافظ محبوب احمد نے فوری طور پر کمر کستے ہوئے ’دسمبر ‘ کی یوں خبر لی:
کتنا ہے موسم سہُانا آجکل
تن بدن ہے عاشقانہ آجکل
رُوٹھی زوجہ کو منانا آجکل
کتنا مشکل ہے نہانا آجکل
جُملہ اعضا ہیں ٹھٹھر کر رہ گئے
شل ہے تن کا کارخانہ آجکل
اس کے موزوں ناموزوں ہونے کی بابت سکوت بہتر ہے۔
جناب عدیمؔ کی بات پر بات کہتے ہوئے’’معظم سدا معظم مدنی‘‘ نامی کسی صاحب نے کہا کہ ’’میرے خیال ہے دسمبری شاعروں کے پیچھے ناقدین ہاتھ دھوکر پڑ گئے تھے چنانچہ تنگ آکر دسمبریوں نے ہاتھ جوڑ لیے ہیں‘‘۔ میری رائے میں ایسا نہیں ہے۔ دسمبر کی آمد سے ذرا پہلے اور دسمبر میں تھوڑی بہت پیش رفت ہوئی تھی، ہاں البتہ باقاعدہ شاعری اور وہ بھی باقاعدہ شاعروں کی طرف سے کم کم ہوئی;زیادہ تر نقل درنقل اور اکثر پُرانی ’دسمبری شاعری‘ دیکھنے کو ملی۔
ماہ دسمبر ہماری سیاسی تاریخ کے دو سانحوں کی دل خراش یاد بھی تازہ کرتا ہے۔ سولہ دسمبر، یوم سقوطِ ڈھاکا۔ وہ تاریک دن جب ہم نے دشمن کو بہت خوشی خوشی اپنے ہی وطن کا ایک ٹکڑا کسی ’کیک پِیس‘ کی طرح کاٹ کر پیش کردیا تھا۔1971ء کے اس عظیم سانحے کی یاد 2014ء میں ہونے والے سانحہ آرمی پبلک اسکول سے مزید کرب ناک ہوگئی۔
دسمبر جب بھی آتا ہے اپنے ساتھ محض خزاں وسرما کا امتزاج ہی نہیں لاتا، بلکہ بے شمار پھولوں، پودوں اور درختوں پر حقیقی بہار بھی اُس کے ہمراہ ہوتی ہے۔ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ موسم خزاں کا مطلب ہے ہر سُو ’پت جھڑ‘ اور ویرانی۔ یہ کہنا اور سمجھنا بھی غلط ہے کہ پت جھڑ فقط موسمِ خزاں ہی میں ہوتی ہے، راقم کا مشاہدہ ہے کہ اپریل کے مہینے میں بھی پت جھڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور بعض اوقات کسی بھی مہینے میں کسی بھی جگہ، کسی بھی درخت یا پودے پر یہی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اس بارے میں ہمارے اہل سائنس و اَدب کو غورفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ماقبل بھی اسی سلسلے کا بعض مضامین نیز سلسلہ سخن شناسی میں ایک پورا مضمون اسی موضو ع پر لکھ چکا ہوں۔ بات کی بات ہے کہ خاکسار سہیل (Canopus) کا دسمبر، خزاں اور سرما سے تعلق ، پیدائشی ہے۔ میرے نام کی توجیہ بھی تاریخی و سائنسی وموسمی ہے۔ میری والدہ مرحومہ نے میرا نام ’’سہیلِ یَمَنی‘‘ حضرت اُوَیس قَرَنی (رحمۃ اللہ علیہ) کی نسبت سے رکھا تھا، جبکہ فہرستِ صحابہ کرام میں اس نام کے متعدد بزرگ ہوگزرے ہیں جن میں’’ خطیبِ قُریش‘‘ حضرت سہیل بن عَمرو (رضی اللہ عنہ‘ ) سب سے نمایاں ہیں۔ سہیل کائنات کا دو سرا (سب سے زیادہ) روشن ستارہ ہے، Sirius یا نجم الشِعریٰ کے بعد (کائنات کے سب سے روشن ستارے نجم الشعریٰ کا ذکر قرآن مجید کی تریپنویں سُورہ النجم کی اننچاسویں آیت میں آیا ہے۔ بعض عرب اس کی پُوجا کرتے تھے کہ اُن کے خیال میں یہ سعد ونحس کا باعث ستارہ تھا)۔ سہیل کو معانی کے لحاظ سے بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس کے متعلق بندہ بہت کچھ لکھ سکتا ہے، مگر یہ مضمون اپنی تعریف میں نہیں، بلکہ محض اس نام کی انفرادیت ہرخاص وعام کے لیے واضح کرنا مقصود ہے۔ حاتم طائی کا قبیلہ ’’بنو طے‘‘ اس کی پرستش کرتا تھا۔ جب موسم خزا ں کے اوائل میں یہ ستارہ یمن کے آسمان پر نمودارہوتا تو قدیم اہلِ عرب کے گُمان یا عقیدے کے مطابق حشرات الارض فوراً مرجاتے اور اِس کی روشنی میں چمڑا رکھ دیا جائے تو اُس میں خوشبو پیدا ہوجاتی تھی۔ اسی لیے یمن میں ایسے کارخانے قائم کیے گئے تھے جہاں ستارہ سہیل کی روشنی میں چمڑے کو خوشبودار بنایا جاتا تھا۔ انھیں کلاسیکی عربی و فارسی ادب میں ’اولاد الزِّنا‘ (ناجائز اولاد) کہا جاتا ہے۔ عربی، فارسی، تُرکی اور اُردو ادبیات میں اس ستارے کے متعلق بہت کچھ موجود ہے۔ فقط ایک فارسی شعر پیش کرتا ہوں:
سہیل وزُہرہ افشانَد
زِسِیما رُوسیاہاں را
(عراقیؔ ہمدانی)
(سہیل اور زُہرہ ستارے آسمان پر نمودار ہوگئے ہیں۔ یہ گناہگاروں کے لیے نشانی ہے ;یعنی اُنھیں اپنے انجام کے پیش نظر توبہ کرلینی چاہیے)۔
سرِدست موضوع پر لکھنے کو مواد بہت ہے مگر فرصت ِ تحریر کم ہے، سو کَم لکھے کو زیادہ جانیں۔ع پھر مِلیں گے اگر خُدا لایا