انسان صدیوں سے یہ سوال پوچھتا آیا ہے کہ کیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں؟ یہ سوال کبھی مذہب کی زبان میں کیا گیا، کبھی فلسفے کی دلیلوں میں، اور کبھی سائنس کی مشینوں سے، مگر جواب آج بھی اتنا ہی پراسرار ہے جتنا قدیم تہذیبوں کے دور میں تھا۔ فلکیات میں ہونے والی تازہ ترین پیش رفت نے ایک بار پھر اس سوال کو زندہ کر دیا ہے۔
کینیڈا میں واقع چائم/فاسٹ ریڈیو برسٹ ریڈیو دوربین نے ایک نہایت روشن اور قلیل المدت ریڈیو دھماکا دریافت کیا، جسے فاسٹ ریڈیو برسٹ 20250316اے کہا گیا۔ اس کے بعد ایک بین الاقوامی سائنسی تعاون کے ذریعے اس دھماکے کے منبع کو نہایت درستی سے دریافت کیا گیا اور پہلی بار یہ ثابت ہوا کہ یہ مظہر ایک مخصوص کہکشاں، این جی سی 4141، سے آیا ہے جو زمین سے تقریباً 130 ملین نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ یہ دریافت محض ایک فلکیاتی کام یابی نہیں بلکہ انسانی فکر کے لیے ایک نیا باب ہے۔
فاسٹ ریڈیو برسٹ ایک ایسی توانائیاتی جھلک ہے جو ہزارویں حصے سے بھی کم سیکنڈ میں خارج ہو کر غائب ہوجاتی ہے۔ مگر اس قلیل وقت میں یہ اتنی توانائی خارج کرتی ہے جتنی ہمارا سورج پورے ایک سال میں خارج کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس داں گذشتہ دو دہائیوں سے ان مظاہر کو سمجھنے کے لیے سرگرداں ہیں۔ ان کی اچانک نمودار ہونے اور فوراً غائب ہوجانے کی عادت نے فلکیات دانوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ اکثر یہ دھماکے ایک ہی بار ظاہر ہوتے ہیں اور دوبارہ نہیں دیکھے جاتے، جس کی وجہ سے ان کے ماخذ کا تعین تقریباً ناممکن سمجھا جاتا تھا۔
یہ معما بالآخر اس وقت حل ہوا جب چائم/فاسٹ ریڈیو برسٹ نے فاسٹ ریڈیو برسٹ 20250316اے کو ریکارڈ کیا۔ چائم کا نظام آسمان کے شمالی نصف کرہ پر مسلسل نظر رکھتا ہے اور چند لمحوں کی جھلک کو بھی نوٹ کر لیتا ہے۔ لیکن محض ایک جھلک کافی نہیں تھی؛ اسے کہکشاں کے ’’پتے‘‘ میں بدلنے کے لیے مختلف اینٹینا اسٹیشنوں کی مدد سے سگنل کے ذرا سے زمانی فرق کا حساب لگایا گیا۔ اس تکنیک کو تثلیثی تعینِ مقام کہا جاتا ہے۔ حیران کن طور پر سائنس دانوں نے اس فاسٹ ریڈیو برسٹ کا منبع صرف 45 نوری سال کے دائرے میں محدود کر لیا، حالاںکہ یہ واقعہ 130 ملین نوری سال کے فاصلے پر ہوا تھا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے زمین پر کھڑے ہو کر درجنوں میل دور پڑے ایک سکے کو پہچان لینا۔
یہ کام یابی صرف ریڈیو لہروں تک محدود نہ رہی۔ جیمز ویب خلائی دوربین کو ان مختص کردہ محددات پر مرکوز کیا گیا۔ ویب کی طاقتور تحتِ سرخ بصارت نے وہاں کے انفرادی ستاروں کو الگ الگ دکھایا اور ایک مدھم مگر اہم ماخذ کی نشاندہی کی۔ ابتدائی تجزیے کے مطابق یہ ایک سرخ دیو ستارہ ہو سکتا ہے جو اپنی گیس خارج کر رہا ہے، جبکہ قریب ہی ایک نیوٹرون ستارہ اس گیس کو اپنی کششِ ثقل سے کھینچ رہا ہے۔ اس منظرنامے میں ایک مقناطیسی جھٹکا یا اچانک توانائی کا اخراج ایسا ریڈیو دھماکا پیدا کر سکتا ہے جیسا چائم نے ریکارڈ کیا۔ ایک دوسرا امکان بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ شاید یہ مظہر کسی مقناطیسی دیو نیوٹرون ستارے کا نتیجہ ہے یعنی ایک ایسا نوخیز نیوٹرون ستارہ جس کا مقناطیسی میدان اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ وہ اپنی سطح کو چیر کر توانائی کے دھماکے خارج کرتا ہے۔
یہ سوال عام قاری کے ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر یہ ریڈیو دھماکا ہوا تو کیا ہم اسے سن بھی سکتے ہیں؟ جواب دلچسپ ہے۔ خلا میں آواز کا سفر ممکن نہیں کیوںکہ وہاں ہوا موجود نہیں، مگر ریڈیو لہروں کو عددی معلومات کی صورت میں ریکارڈ کیا جاتا ہے اور پھر انہیں انسانی سماعت کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ اس عمل کو صوتی قالب سازی کہا جاتا ہے۔ جب فاسٹ ریڈیو برسٹ کا ڈیٹا صوتی قالب میں ڈھالا جائے تو یہ ہمارے کانوں کو ایک تیز ’’پاپ‘‘ یا ’’چِرپ‘‘ کی طرح محسوس ہوتا ہے، ایک ایسی آواز جو محض ڈیٹا کا عکس ہے مگر ہماری کائناتی مسافتوں کی گواہی دیتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ دریافت کیوں اتنی اہم ہے؟ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ پہلی بار ایک فاسٹ ریڈیو برسٹ کو ایک مخصوص کہکشاں اور اس کے ماحول سے جوڑا گیا ہے۔ اس سے سائنس دان اس مقام کے گرد موجود گیس، دھول اور ستاروں کی نوعیت کو سمجھ سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ آیا یہی عوامل فاسٹ ریڈیو برسٹ کے وقوع پذیر ہونے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب فاسٹ ریڈیو برسٹ زمین تک پہنچتے ہیں تو وہ راستے میں موجود کائناتی مادے سے گزر کر آتے ہیں۔ یہ مادہ ان کی لہروں میں معمولی تبدیلی پیدا کرتا ہے جسے سائنسی زبان میں انتشاری پھیلاؤ اور گردشی تغیر کہا جاتا ہے۔ اگر ہمیں فاسٹ ریڈیو برسٹ کا صحیح منبع معلوم ہو تو ان تبدیلیوں کی بنیاد پر ہم کائنات کے درمیان پھیلے پوشیدہ مادے کو ناپ سکتے ہیں۔ یوں ہر فاسٹ ریڈیو برسٹ دراصل ایک نیا ’’کائناتی پیمانہ‘‘ بن جاتا ہے۔
مزید برآں، فاسٹ ریڈیو برسٹ ہمیں ستاروں کی آخری منزل یعنی نیوٹرون ستاروں اور مقناطیسی دیو نیوٹرون ستاروں کے رویے کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ کائنات کے سب سے زیادہ کثیف اجسام ہیں اور ان کی طبیعیات آج بھی سائنس کے بڑے معموں میں شمار ہوتی ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فسٹ ریڈیو برسٹ انہی اجسام سے پیدا ہوتے ہیں تو یہ دریافت کائناتی ارتقا اور انتہائی توانائیاتی مظاہر کو سمجھنے میں ایک انقلاب ثابت ہوگی۔
اب ماہرین کی توجہ مستقبل پر ہے۔ چوںکہ فاسٹ ریڈیو برسٹ کسی مقررہ وقت یا جگہ پر ظاہر نہیں ہوتے، اس لیے سائنسی ٹیمیں ایسے نظام بنا رہی ہیں جو لمحوں میں ردِعمل دے سکیں۔ جیسے ہی کوئی فاسٹ ریڈیو برسٹ ظاہر ہو، زمینی اور خلائی دوربینیں فوراً اس سمت پر مرکوز ہوجائیں اور مزید مشاہدہ کریں۔ چائم اور اس جیسے دیگر ریڈیو دوربینیں اس حکمتِ عملی میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہیں۔ جیمز ویب کی اس دریافت نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر درست محددات فوری دست یاب ہوں تو کائنات کے لاکھوں نوری سال دور ہونے والے مظاہر کو بھی باریک بینی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ سب کچھ ہمیں اس بڑی تصویر کی طرف لے جاتا ہے کہ کائنات ایک ’’خاموش خلا‘‘ نہیں بلکہ ایک مسلسل متحرک اور توانائی سے لبریز کائنات ہے۔ جہاں کہکشائیں ٹکراتی ہیں، ستارے پیدا ہوتے اور مرتے ہیں، اور توانائی کے ایسے جھماکے ہوتے ہیں جو انسانی عقل کو حیران کر دیتے ہیں۔ فاسٹ ریڈیو برسٹ انہی جھماکوں میں سے ایک ہیں جو ہمیں کائنات کی پوشیدہ پرتیں دکھانے لگے ہیں۔
فلسفیانہ پہلو سے دیکھا جائے تو یہ دریافت انسان کو اس کی کائناتی حیثیت پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر ہم محض چند لمحوں کے جھماکے کو نوری سالوں کے فاصلے سے پکڑ سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کائنات واقعی ہمارے سامنے اپنے راز کھولنے پر آمادہ ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم اسے سمجھنے کی صلاحیت اور جرات رکھتے ہوں۔ یہ دریافت اس بات کی بھی علامت ہے کہ انسانی تعاون اور سائنسی عزم سے وہ کچھ ممکن ہو سکتا ہے جو چند دہائیاں پہلے ناممکن لگتا تھا۔
اختتام پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ فاسٹ ریڈیو برسٹ محض فلکیاتی مظاہر نہیں بلکہ کائنات کے نئے چراغ ہیں۔ ہر فاسٹ ریڈیو برسٹ ایک نیا سوال، ایک نیا راستہ اور ایک نئی کھڑکی کھولتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ کائنات کے سفر میں ابھی بہت سے راز باقی ہیں۔ سائنس کا اصل مقصد یہی ہے کہ ہم ان رازوں کو دریافت کرتے جائیں، ان سے سبق سیکھتے جائیں اور اپنی فکری و عملی دنیا کو وسعت دیتے جائیں۔ شاید یہی دریافت ہمیں اس سوال کے قریب لے جائے جس نے انسانی ذہن کو ہمیشہ بے چین رکھا ہے: کیا واقعی ہم اکیلے ہیں یا یہ کائنات زندگی کے اور بھی رنگوں سے بھری ہوئی ہے؟