وہ صرف تین سال کا بچہ نہیں تھا۔ وہ اپنے والدین کی سات سال کی سجدہ گاہوں کی گرد، دعا کے کٹوروں کی کھنک اور انتظار سے خشک ہونے والے ہونٹوں کی نمی تھا۔ والدین نے اس بچے کا نام رکھنے سے پہلے سات سال تک آسمان کی طرف خالی ہاتھ اٹھائے تھے۔ ان سات برسوں میں نہ جانے کتنی خوشیاں جو ادھوری رہیں، کتنی دعائیں ادھورے مصرعوں کی طرح لبوں پر رک گئیں، کتنی تہجدیں بس آنسوؤں کی نمی میں ڈوب کر رہ گئیں۔ پھر ایک دن آسمان نے رحم کا دروازہ کھولا اور یہ بچہ ماں کی جھولی میں ایسے اترا جیسے سوکھے گملے میں برسوں بعد پہلا پھول کھل پڑے۔ یہ بچہ صرف بچہ نہیں تھا۔ یہ سات سال کے رزق کا پہلا دانہ تھا، سات سال کے صبر کا پہلا ثمر تھا اور طویل ترین رات کے بعد ملنے والی پہلی روشنی تھا۔
مگر پھر محض ایک لمحہ آیا اور پوری کائنات یوں بکھر گئی جیسے کسی نے قسمت کی کتاب سے ایک پورا صفحہ پھاڑ کر گٹر برد کر دیا ہو۔ جب وہ بچہ گٹر میں گرا تو دیکھنے والوں نے ایک منظر دیکھا کہ جہاں ایک باپ ایسا ٹوٹا جیسے کسی نے اس کا سینہ چیر کر دل نکال کر گٹر میں پھینک دیا ہو۔ وہ باپ جو چند لمحات پہلے اس بچے کی معصوم مسکراہٹ کے سحر میں تھا وہی باپ آنے والی چند ساعتوں بعد اپنے ہاتھ اس کھلے گٹر کے خوف ناک اندھیرے میں ایسے ڈال رہا تھا جیسے ایک بیبس پرندہ اپنے بچے کی آخری چیخ سن کر آشیانے کے جلے ہوئے ملبے میں آخری بار جھانکتا ہے۔ وہ اس امید کے ساتھ خود کو گٹر میں جھکاتا جا رہا تھا کہ شاید، شاید وہ اپنے بچے کی چھوٹی سی انگلی پکڑ کر اس کو واپس زندگی کی طرف کھینچ سکے۔ اور ماں؟ ماں جس طرح بچے کو اس گٹر میں گرتا دیکھ کر دوڑی اس کے ہر قدم میں خوف اور لرزتی امید کی وہی جھلک تھی جو اس آسمان نے ایک بار اس وقت دیکھی تھی کہ جب حضرت حاجرہ اپنے بیٹے کو پیاسا دیکھ کر صفا اور مروہ کے درمیان دوڑی تھیں۔ یہ کوئی عام دوڑ نہیں بلکہ یہ قیامت کا سفر تھا۔ جب وہ گٹر کے پاس پہنچی اور اس کی نگاہیں خالی لوٹ آئیں تو اس کی آہ، اس کی چیخ انسانی نہیں تھیں۔ یہ وہ درد تھا جو عرش کے ستونوں تک جاتا ہے جو آسمان کے فرشتوں کے پروں تک کو لرزا دے اور جو قوموں کی تقدیر کے رجسٹر پر سیاہ لکیر بن کر اترتی ہے۔
اور وہ بچہ، جیسے سفید پاکیزہ سی روشنی میں ایک چھوٹی سی روح جھلملاتی ہے۔ وہی روح جس کی آنکھوں کا اجلا پن اس کی روح کی معصومیت کی دلیل ہے۔ جس کے قدموں کا رقص شاید اس کی ماں کے ہاتھ میں پکڑے اس نیلے پلاسٹک کے بیگ میں خریدا وہ کھلونا تھا جس سے گھر جا کر کھیلنے کے جوش نے اس کو ماں کا ہاتھ چھڑوا کر باپ کی طرف دوڑنے پر مجبور کیا۔ غور سے دیکھو تو اس معصوم کے قدموں میں وہی شرارت تھی، وہی بے فکری تھی، وہی ہنسی تھی جو ماں کے دوپٹے کے پیچھے چھپنے والے ہر بچے کی آنکھ میں جھلکتی ہے۔ جیسے زندگی اس کے ننھے قد میں سمٹ کر جھوم رہی ہو۔ مگر پھر فضا میں ایک عجیب سی بُو شامل ہو جاتی ہے، وہی تعفن جو ہمارے شہر کی گلیوں میں کھلے گٹر اُگلتے رہتے ہیں اور جن میں نالائقی، نااہلی اور بدانتظامی کا پورا عذاب بہتا ہے۔ یہ بدبو انسان کے سینے پر ایک ایسے گہرے کچوکے کی طرح اترتی ہے کہ دل چاہتا ہے دنیا رک جائے، سانس تھم جائے اور بس ایک سوال باقی رہ جائے کیا ایک گٹر کے ڈھکن سے بھی سستا ہماری اگلی نسل کا خون ہے؟
یوں تو زندگی ایک خوب صورت رقص تھی جو وہ بچہ ابھی سیکھ ہی رہا تھا لیکن شہر نے اسے وہ رقص مکمل کرنے ہی نہ دیا اور اس کا جُرم صرف اتنا تھا کہ کہ وہ گھر سے اس معصوم خواہش کے ساتھ نکلا تھا کہ ماں باپ کے ساتھ شاپنگ مال میں جاکر کچھ کھلونے خرید لے گا، وہاں لگے جھولوں میں تھوڑا جھولے گا، تھوڑا سا دوڑے گا، ماں سے ضد کرکے چاکلیٹ لے آئے گا۔ تین سال کے بچے کا بھلا اس سے بڑا کیا جرم ہو سکتا ہے؟ وہ کون سا ڈنڈا لے کر نکلا تھا کہ سر پھوڑے؟ اس کا ارادہ یہ تھوڑی تھا کہ کسی طاقتور کے خلاف احتجاج کرنے سڑک پر کھڑا ہوجائے؟ اپنی معصوم سوچوں میں وہ تو بس تھوڑا صاف سا سفید لباس اور نسبتاً نیا جوتا پہن کر خوش تھا کہ آج کی شام مزے کی گزرنی۔ مگر اس شہر نے اس معصوم سے وہ حق بھی چھین لیا کہ وہ اپنے چھوٹے قدموں پر سیدھا چل سکے۔ ایک ایسے وطن میں جہاں ہر دوسرا طاقتور قبضہ گروپ سے وابستہ ہے، جہاں فٹ پاتھوں پر محل بنتے ہیں، جہاں انڈر پاسوں کے بجٹ میں بوگس نمبر چلتے ہیں، جہاں ہر نئی سڑک کے پیٹ میں کچھ اربوں کی خوردبرد دفن ہوتی ہے اُس ملک میں ایک کھلے گٹر نے ایک بچے کی پوری کائنات نگل لی۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللّہ کسی روح کو بے مقصد پیدا نہیں کرتا۔ ہر بچہ خواہ وہ غریب گلی میں پیدا ہو یا عالی شان محل میں، ایک آسمانی نقشے کے تحت دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ ایک ایسا نقشہ جس پر اس کی زندگی کا راستہ، اس کی بھلائیاں، اس کے اثرات سب کچھ درج ہوتا ہے۔ ہر وہ روح جو اس دنیا میں جنم لیتی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسانوں کی تمام تر نافرمانیوں کے باوجود آج بھی رب کی ذات اولاد آدم علیہ السلام سے مایوس نہیں ہوئی اور وہ بچہ جو کراچی کے ایک کھلے گٹر میں گر کر ناگہانی موت کا شکار ہو گیا سو گمان غالب ہے وہ بھی کسی آسمانی منصوبے کا حصہ رہا ہوگا لیکن اس حادثے نے اس کے راستے کا پہلا قدم ہی مار دیا اور یوں ایک آسمانی تحریر انسانی غفلت کے ہاتھوں پھاڑ دی گئی۔ شاید کہ جو آسمانوں پر طے ہوا تھا اب نہیں ہوگا اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے شاید کوئی بھی اس قابل نہیں جو اس ردوبدل کے اثرات پر بات کرے کہ اس بچے کی موت صرف اس کا خاتمہ نہیں، یہ ایک پورے سلسلے کا خاتمہ تھی۔ یہ ان واقعات کا خاتمہ ہے جو اب نہیں ہوں گے اور جن کے نہ ہونے کا فرق اجتمائی طور پر ہم سب کو جھیلنا ہوگا۔
وہ بچہ بڑا ہو کر شاید بلدیاتی انجنیئر بنتا۔ وہی نظام ٹھیک کرتا جو آج اس کی قبر کا سبب بنا۔ وہ بچوں کے لیے محفوظ گلیاں بناتا، ایسی تکنیک لاتا جس سے گٹر کھلے نہ رہیں۔ شاید وہ ایک استاد بنتا جو سو بچوں کی تقدیر بدل دیتا۔ وہ کسی بیمار کے لیے دوا بنتا کہ شاید وہ ڈاکٹر بنتا، کسی ماں کا آخری سہارا، کسی باپ کی آخری امید۔ وہ عمر کے آخری حصے میں اپنے والد کی لاٹھی بنتا اور بڑھاپے میں اپنی ماں کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔ اللہ نے اس بچے کی تقدیر میں گود لکھی تھی، ہم نے اس کے حصے میں گٹر ڈال دیا۔ اللہ نے اس کے لیے زمین پر سفر لکھا تھا، ہم نے راستے میں ایک کھلا گڑھا چھوڑ دیا۔ یہ بچہ صرف ایک بچہ نہیں تھا، یہ مستقبل تھا اس کی موت کے ساتھ ایک محقق ختم ہوگیا، ایک انجینئر ختم ہوگیا، ایک استاد ختم ہو گیا، ایک باپ ختم ہوگیا۔ ایک شوہر ختم ہو گیا، ایک خاندانی سلسلہ ختم ہوگیا اور ایک پوری متبادل ٹائم لائن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان لکھی رہ گئی۔ شہر نے صرف ایک بچہ نہیں مارا اس نے وہ سب کچھ مار دیا جو اس بچے سے آگے آنے والا تھا۔ یوں ایک پورا شجر انسانی پیدا ہونے سے پہلے جڑ سے اکھاڑ دیا گیا جو رب کی امید پر دلیل تھا جو ہر اس انسان کے کمزور لمحوں میں رب پر ظالم ہونے کے الزام کا جواب تھا کہ خدا ظالم نہیں بلکہ ظالم تو یہ معاشرہ اور اس میں رائج نظام ہے کہ جس میں رہنے والوں کی اکثریت اپنے اعمال پر قدرت کے توازن کو بگاڑ کر اپنے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔
وہ شہر جہاں میں رات گئے تک عالی شان گھروں کے لان میں محافل سجی رہتی ہیں، جہاں خوش پوش لوگ چمکتی گاڑیوں میں قانون کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں، انہی کوٹھیوں کی قطاروں کے اطراف ایسے ہی نجانے کتنے معصوم پھول جیسے بچے سادہ کپڑوں میں، چپلیں گھسیٹتے اپنی چھوٹی سی دنیا میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بچہ بھی انہی روحوں میں سے ایک تھا صاف، بے ضرر، پاکیزہ۔ اس کی آنکھوں میں دنیا کی کوئی چمک نہیں تھی۔ مگر جب اس کا چھوٹا سا جسم اس گٹر میں اترا، اس کے ہاتھوں کی کمزوری اور اس کی چیخ کی بے بسی پورے معاشرے کے منہ پر طمانچہ بن کر رہ گئی۔ اس کی ماں کی آنکھوں میں اُسی اُداسی کی جھلک ہے جو دہائیوں سے متوسط طبقے کی قسمت بن چکی ہے۔ باپ کے چہرے پر وہی محرومی ہے جو اس ملک کے ہر لاچار شہری کی رگوں میں بہتی ہے۔ سونے کے کنگنوں سے محروم کلائیاں، دولت کی چمک سے عاری چہرہ اور ہاتھوں میں لپٹی ہوئی وہ چھوٹی سی قمیص، جسے وہ دیکھ کر بار بار ٹوٹ جاتے ہونگے۔ اس بچے نے کسی کا نقصان نہیں کیا تھا، کسی پر حملہ نہیں کیا تھا، کسی جرم میں شریک نہیں تھا اس کا واحد قصور یہ تھا کہ وہ ایک ایسے شہر میں پیدا ہوا جہاں گٹر کے ڈھکن طاقت وروں کی ترجیح نہیں، صرف غریبوں کی قبریں بن جاتے ہیں۔
باقی کے مناظر بالکل ویسے ہی تھے جیسے ہم آج تک دیکھتے آئے ہیں۔ شہر کے میئر کی فکر صرف اپنے پارٹی کے منفی تاثر کو سنبھالنے تک محدود تھی۔ وہ خاندان کے گھر جا کر تعزیت کے چند الفاظ کہہ کر چھوٹے موٹے امدادی پیکج دے گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہ اقدامات شہر کی حفاظت یا بچوں کی زندگی کی قدر سے بالکل میل نہیں کھاتے کہ کراچی جیسے شہر کا انتظام سنبھالنے کے لیے جدید اور مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف، جماعتِ اسلامی جیسے حزبِ اختلاف کے لوگ اس سانحے کو اپنی سیاسی حکمت عملی میں استعمال کر رہے ہیں حالاںکہ اس علاقے کا منتخب ناظم انہی کی پارٹی کا تھا۔ مزید ایک اور حزبِ اختلاف کی جماعت اسے موجودہ حکومت کی ناکامی قرار دے رہی ہے حالاںکہ دہائیوں سے یہی لوگ اقتدار میں تھے اور اس دوران ان لوگوں نے شہر کو ایسے واقعات سے محفوظ بنانے کے لیے کوئی ایک بھی قابل عمل اور دیرپا منصوبہ کبھی پیش نہ کیا۔
اس دردناک واقعے کو جب میڈیا نے نشر کرنا شروع کیا تو بناء وقت ضائع کیے، کے -ڈبلیو- ایس- بی اور کراچی میونسپل کارپوریشن نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اعلان کردیا کہ اس گٹرلائن کے نقشے ان کے ریکارڈ میں دستیاب نہیں کیونکہ یہ کام بناء ان اداروں کے منظور شدہ منصوبہ اور بغیر دستاویز کے ہوا تھا۔ ریسکیو سروسز کہتی رہیں کہ ہم رات کے وقت آپریشن انجام نہیں دیتے کیوںکہ تربیت یافتہ عملہ یا ضروری آلات دستیاب نہیں۔ جس شاپنگ مال کے اطراف میں یہ وقوعہ پیش آیا اور جہاں لاکھوں روپے روزانہ کی فروخت ہوتی ہے اس کے مالکان شاید اپنے زائرین کی حفاظت کی کوئی اخلاقی ذمہ داری محسوس نہیں کرتے اور جو کریں بھی تو نشہ آور لوگ آزاد گھوم رہے ہیں اور سرکاری حکمت عملی کا یہ حال ہے ان کے منشیات کے حصول کے لیے چوری کیے جانے والے گٹر کے ڈھکن کو چوری سے روکنے کی کوئی پلاننگ نہیں۔ والدین، جو کراچی کے مقامی ہیں انہیں بھی چاہیے تھا کہ وہ اپنے بچے کی حفاظت کے لیے زیادہ محتاط رہیں کیوںکہ جانور بھی اپنے بچوں کو خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھاتے ہیں کہ پچھتاوے سے بہتر احتیاط ہے۔ حکومت کو ایسے واقعات روکنے کے لیے بیانات نہیں، سسٹم ٹھیک کرنا ہوگا۔ ہر مین ہول اور سیوریج پوائنٹ کا جی پی ایس ریکارڈ ہو، خرابی کی اطلاع کے لیے شہریوں کو ایک مرکزی ڈیجیٹل پورٹل دیا جائے، مرمت کے لیے 24–48 گھنٹے کی سخت ڈیڈلائن مقرر ہو اور غفلت ثابت ہونے پر فوری معطلی، جرمانہ اور کنٹریکٹر کی بلیک لسٹنگ ہو۔ ہر گٹر کے پاس ایک نقشہ/کوڈ ہو جس میں واضح ہو کون سی یونین کونسل، کون سا سپروائزر، کون سا کنٹریکٹر حادثہ ہو تاکہ یہ سب کی غلطی تھی والا ڈراما ختم کیا جا سکے اور براہِ راست ایک ذمے دار پکڑنا ممکن ہو۔ جب ٹیکنالوجی، شفافیت اور سخت جوابدہی تینوں ایک لائن میں آجائیں تبھی یہ حادثات دوبارہ نہیں ہوتے ورنہ دائروں کا یہ سفر ہمیشہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
مجھے نہیں معلوم مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں پیش آنے والے ان گنت واقعات کی طرح یہ دردناک واقعہ بھی میڈیا کی بدولت محض چند روز ہی زندہ رہے گا اور پھر اس کا انجام بھی ایک گٹر ہے مگر افسوس یہ سب کچھ اُس شہر میں ہوا جو پاکستان کا سماجی اور اقتصادی مرکز ہے سو باقی ملک کے حالات کا اندازہ آپ خود خود لگا سکتے ہیں۔ شہر کے سر پرستوں کو نوید ہو کہ جلد کراچی اس واقعے کو بھلا کر پُرسکون تو ہوجائے گا لیکن شاید مزید اُداس بھی اور یاد رہے کہ اداس شہروں میں برکتیں نہیں اترا کرتیں۔ سفید لباس میں ملبوس وہ خوب صورت بچہ شاید سفید کفن میں مزید خوب صورت لگا ہوگا، جیسے کوئی شہزادہ۔ ہاں مگر یہ سوال بہت سوں کی طرح کافی عرصہ میرا بھی پیچھا کرے گا کہ وہ معصوم کون تھا؟ کیوں چلا گیا؟