دنیا بھر میں مظلوم فلسطینیوں کی آواز بننے والے اداکار اور فلم ساز محمد بکری 72 برس کی عمر میں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئے۔
عرب میڈیا کے مطابق حساس دل اور فلسطینیوں کے لیے درد رکھنے والے اس عظیم فلم ساز کو دل اور پھیپھڑوں کے مختلف عارضوں کا سامنا تھا۔
انھیں طبیعت بگڑنے پر اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر نے جان بچانے کی کوشش کی لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے اور اپنے اہل خانہ، دوستوں اور دنیا بھر کے مداحوں کو روتا چھوڑ گئے۔
اپنے آخری دنوں میں بھی انھوں نے کسی بھی جبر اور پابندی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے مختلف پراجیکٹس پر کام کیا۔
اسرائیلی جارحیت اور بے جا سنسر شپ کے خلاف زندگی بھر قانونی جدوجہد کی جو فلسطینی مزاحمت کا ایک نمایاں باب بن کر ابھری ہے۔
72 سالہ فلم ساز کو سب سے زیادہ شہرت 2002 کی دستاویزی فلم ’’جنین، جنین‘‘ سے ملی تھی۔ جنین میں واقع فلسطینی پناہ گزین پر کی قیامت گزری تھی وہ اس فلم میں دکھائی گئی تھی۔
اسرائیل نے اپنا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہونے کے ڈر سے فلم کی نمائش پر پابندی عائد کردی تھی۔
فلم ساز محمد نے ہمت نہ ہاری اور قانونی جنگ لڑتے رہے یہاں تک کہ 2022 میں اسرائیلی سپریم کورٹ نے بھی فلم کو ہتکِ عزت قرار دیکر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا۔
اس پابندی کے باوجود یہ فلم عالمی شہرت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی بلکہ اسی مقدمے نے دنیا بھر میں فلم کو دیکھنے پر مجبور کیا۔
یوں اسرائیلی پابندی نے اپنے ملک میں تو فلم روک دی لیکن دنیا بھر میں نہ روک سکا اور خود بے نقاب ہوگیا۔