دسمبرکا مہینہ بڑی تکلیف دہ یادیں لے کر آتا ہے۔ اسی مہینے میں میری والدہ کا انتقال ہوا تھا، یہی مہینہ تھا جب 1971 میں ہمارا وطن دو ٹکڑے ہو کر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، باوجود اس کے کہ اکثریتی سیٹیں مجیب الرحمن کی پارٹی کو ملیں لیکن اقتدار کی نوچ کھسوٹ میں ملک ٹوٹ گیا اور بچ جانے والے مغربی پاکستان میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو گئی، تب ایک مقبول لیڈر نے کہا کہ ’’ پاکستان اب بنا ہے‘‘ یعنی انھیں مشرقی پاکستان کے الگ ہو جانے کا کوئی دکھ نہیں تھا۔ یہی مہینہ تھا جب جنرل نیازی نے جنرل اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ اس صورت میں اپنوں کی نااہلیوں اور نالائقیوں اور سازشوں کا بڑا ہاتھ تھا، اس وقت کوئی منتخب حکومت پاکستان میں نہیں تھی، ایک مارشل لا تھا لیکن پھر بھی جنرل یحییٰ نے شفاف الیکشن کروا کے اقتدار نمایندوں کے سپرد کر دیا۔
آج کل بھی ملک میں خاصا انتشار ہے، کچھ غلط فیصلے خلیج پیدا کر رہے ہیں، جب طاقت کے سارے سوتے کسی ایک شخص کی ذات میں جمع ہو جائیں تو خلیج پیدا ہونا لازمی ہے، سیاسی اور سماجی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے، مہنگائی کا سیلاب بڑھتا چلا جا رہا ہے، ٹماٹر ڈھائی سو روپے کلو، آلو ایک سو بیس روپے کلو اسی طرح دیگر سبزیاں دالیں، چاول، دودھ، دہی مہنگا بیچا جا رہا ہے، حکومت کہیں نظر نہیں آ رہی، البتہ اس وقت پنجاب میں سبزیاں بہت سستی ہو چکی ہیں ، لاہور میں اعلی کوالٹی کا ٹماٹر ساٹھ روپے ،نئے آلو چالیس روپے کلو ہو چکے ہیں، حکومتی کنٹرول کے باعث تنوروں پر روٹی سستی بیچی جا رہی ہے۔
صاف ستھرا پنجاب پروگرام کامیابی سے چل رہا ہے۔ دوسری جانب موبائل فون کے پیکیج ہر ماہ بڑھائے جا رہے ہیں،کوئی پوچھنے والا نہیں، حکمران صرف دورے کر رہے ہیں، عوام کی بہبود کے لیے کوئی کام کہیں نظر نہیں آ رہا۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، وزرا اپنے دفتروں کے ایئرکنڈیشن کمروں میں آرام کرتے نظر آتے ہیں، کسی وزیر کی کارکردگی نظر نہیں آتی۔ ہو سکتا ہے میری بات سے بہت سے لوگ اتفاق نہ کریں، لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ اس ملک میں سب سے زیادہ کھلواڑ ’’جمہوریت‘‘ کے ساتھ کیا گیا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ جمہوریت کی ڈگڈگی اور اس پر ناچنے والی مخلوق کو اب سب پہچانتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں فوجی حکومت معاملات کو زیادہ اچھے طریقے سے ہینڈل کرتی رہی ہے، قیمتوں پر بھی کنٹرول کرتی ہے اور سخت سزائیں بھی دیتی ہے۔
موجودہ صورت حال بڑی افسوس ناک ہے، شخصی آزادی رائے پر پابندیاں لگانا مناسب نہیں، اس طرح ملک میں حبس کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے، جب ایسی صورت حال ہو تو ریاست پریشر ککر بن جاتی ہے۔
فیض صاحب نے بھی قید و بند کی صعوبتیں سہی تھیں، لیکن وہ شعر کہتے رہے، لکھتے رہے، ان کے لکھنے پر کسی نے قدغن نہیں لگائی۔ پرویز مشرف کا دور تھا اور میں کھل کر لکھتی تھی حکومت پر تنقید بھی کرتی تھی بلکہ کئی ایک کالموں میں پرویز مشرف کو بھی نشانہ بنایا، تب ایک دن دوپہر میں ایکسپریس کے ایڈیٹر جناب طاہر نجمی کا فون آیا اور انھوں نے کہا کہ ’’شوکت عزیز کے پی آر او کا فون آیا تھا کہ آپ اپنے کالموں میں بہت سخت زبان استعمال کرتی ہیں۔ ‘‘ یہ بھی کہا کہ ’’وہ خاتون ہیں اس لیے ہم خود انھیں کچھ نہیں کہہ رہے آپ سمجھا دیں۔‘‘ تب نجمی صاحب نے کہا کہ ’’آپ ہاتھ ہلکا رکھیں۔‘‘ تب میں نے کالموں کا رخ بدل دیا، کیونکہ میں تعریف نہیں کر سکتی تھی اور سچ سننا کسی حکومت کو منظور نہیں، اس لیے عنوان بدل دیے، کسی اور طرف نکل گئی لیکن موجودہ صورت حال پر میری تشویش بجا ہے۔
ایک اور بات کی طرف حکومت کی توجہ دلانا چاہتی ہوں، وہ ہے شہزاد اکبر اور عادل راجہ کے خلاف حکومتی ایکشن، چند دن پہلے تک عام آدمی کو پتا بھی نہیں تھا کہ یہ دونوں کون ہیں؟ بہت سے بہت بیس فی صد لوگ جانتے ہوں گے، یا اس سے بھی کم لیکن ان کے خلاف پریس کانفرنس کرکے، عدم حاضری پر انھیں اشتہاری قرار دینے سے لے کر ان کے وی لاگ کی خدمت کرنا تک کسی کو اس بارے میں کچھ پتا نہیں تھا، کیوں کہ عوام کی اکثریت موبائل پر زیادہ تر تفریحی پروگرام دیکھتی ہے لیکن جب سے ان دونوں کے خلاف اخباروں میں بڑی بڑی جلی حروف میں خبریں لگ رہی ہیں تو عام آدمی نے نوٹس لیا اور انھیں موبائل پر ڈھونڈ کر ان کے وی لاگ سنے۔ آپ نے اس سب سے انھیں ملزم کے بجائے ہیرو بنا دیا، بہتر تھا کہ ان کی پوسٹوں پر توجہ نہ دی جاتی۔
پتا نہیں فیض صاحب کیسے یہ کہہ گئے کہ:
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
حالانکہ اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
دوسرا مصرعہ بہت معنی خیز ہے۔ ہاتھوں کا قلم ہو جانا۔ لیکن آج کے ماحول میں تو کوئی یہ ہمت نہیں کر سکتا۔ ایک اور جگہ فیض صاحب کہتے ہیں:
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر جھکا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ایک اور جگہ کہتے ہیں:
بول کے لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہتا ہے کہہ لے
ایک اور جگہ کہتے ہیں:
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
’’زنداں نامہ‘‘ کی تمام شاعری منٹگمری جیل میں لکھی ہوئی ہے۔ سب شایع ہوتی رہیں، شاعر کے لیے ایسی شاعری کرنا جو عوام کی امنگوں اور گردشوں کی آئینہ دار ہو لکھنا کوئی مشکل نہیں لیکن کیا آج کا دور ایسا ہے کہ کوئی شاعر اٹھ کر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائے؟ نہیں ، اس حبس زدہ موسم میں قلم ریزہ ریزہ ہو گئے ہیں، بات کرنی کبھی مشکل نہ تھی، ہر دور میں لکھنے والوں پر ایسا موسم ضرور آتا ہے جب انگلیاں فگار ہو جاتی ہیں۔
فیض صاحب کے ’’زنداں نامہ‘‘ کی شاعری مختلف جیلوں کے اندر لکھی گئی۔ اس میں 1954 میں حیدرآباد جیل میں بھی لکھی گئی نظمیں موجود ہیں۔
1979 میں انھوں نے ایک نظم لکھی تھی، چند شعر ملاحظہ ہوں:
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے