وزیر اعظم کے ترجمان مشرف زیدی نے بانی پی ٹی آئی کے صاحبزادوں کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ گرفتار اور سزا یافتہ بانی پی ٹی آئی کو کسی سیل میں نہیں رکھا گیا بلکہ وہ مخصوص رہائشی سہولیات کے حامل جیل کے ایسے کشادہ کمروں میں ہیں جہاں انھیں ورزش کی سہولت، کھلا لان، چہل قدمی کے لیے وسیع جگہ اور مطالعے کے لیے الگ کمرہ میسر ہے جب کہ کسی اور قیدی کو یہ سہولیات حاصل نہیں ہیں۔
سابق وزیر اعظم اپنے کم از کم 6 گھنٹے فراہم کی گئی جگہ سے باہر گزارتے ہیں۔ انھیں سونے کے لیے الگ کمرہ اور کھانے کے لیے باورچی میسر ہے اور جیل افسر ان کے لیے باہر سے آنے والے کھانے کی نگرانی کرتا ہے اور ان کی ضرورت پر طبی سہولیات بھی فوری طور پر فراہم کی جاتی ہیں۔
بانی کے صاحبزادوں کے دیگر الزامات کا جواب نہیں دیا گیا کہ عدالتی حکم کے باوجود ان کی اپنے اسیر والد سے فون پر بات نہیں کرائی جاتی اور ان کی جولائی کے آخر میں والد سے بات کرائی گئی تھی۔ حقائق سے لاعلم لندن میں موجود سابق وزیر اعظم کے بیٹوں کے بقول فراہم کردہ کھانا انتہائی ناقص ہے، ان کے 6 سے آٹھ فٹ کے چھوٹے سے سیل کے قریب حالات بہت خراب ہیں پانی گندا اور بھورا ہے۔ جیل کے اہلکاروں کو بھی بانی سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
سابق وزیر اعظم کے دونوں بیٹوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے والد خطرات کا سامنا کرتے ہیں اور اپنے مخالفین کے خلاف سخت بیانات دینا ان کی فطرت ہے مگر حکومتی سختیوں کے باوجود ان کے والد ٹوٹیں گے نہیں وہ اپنے والد سے پاکستان جا کر ملنا چاہتے ہیں مگر برطانوی حکومت نے انھیں پاکستان جانے پر سیکیورٹی نہ فراہم کرنے کی وارننگ دی ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے والد کو جیل میں مکمل تنہائی میں رکھنا حکومت کی طرف سے تشدد کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے مترادف ہے۔سابق وزیر اعظم کے دونوں صاحبزادوں کو اردو نہیں آتی اور ان کی طرف سے جو بیانات جاری ہوتے ہیں وہ وہاں کے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی طرف سے جاری ہوتے ہیں اور نام صاحبزادوں کا ہوتا ہے۔ بانی کے دونوں بیٹوں کو یہ بھی پتا ہوگا کہ ان کی تیسری والدہ بشریٰ بی بی بھی اڈیالہ جیل میں قید اور سزا یافتہ ہیں جن کی جیل میں صورت حال کیسی ہے اس پر انھوں نے کبھی بیان نہیں دیا اور انھیں صرف اپنے والد کے حالات پر تشویش ہے۔
جیل میں دونوں میاں بیوی کی ملاقات قانون کے مطابق ہوتی ہوگی اور بشریٰ بی بی کو اپنے اہل خانہ اور کبھی وکلا سے ملاقاتیں بھی کرائی جاتی ہیں جو جیل کے ملاقاتیوں کے حصے میں ہوتی ہوں گی مگر بشریٰ بی بی کی طرف سے کبھی ایسے بیانات سامنے آئے نہ کبھی انھوں نے اپنے شوہر سے متعلق کبھی بتایا کہ وہ کن حالات میں ہیں۔ بشریٰ بی بی کی دبئی میں موجود بہن تو کبھی کبھی بیان دے دیتی ہیں مگر ان سے ملنے والے اہل خانہ نے اپنی والدہ یا سوتیلے والد کو جیل میں درپیش کسی مسئلے پر میڈیا کو نہیں بتایا۔ بشریٰ بی بی کو کیا کبھی ان کے شوہر نے نہیں بتایا ہوگا کہ وہ جیل میں کیسے وقت گزار رہے ہیں، جیل میں بانی کے بیٹوں کے الزامات کی تائید نہیں کی صرف بانی کی بہنیں اور ملک سے باہر موجود بیٹے ہی الزامات لگاتے آ رہے ہیں کہ بانی چھوٹے سے کمرے میں قید اور تنہائی کا شکار ہیں۔
جیل میں بانی کی صرف تینوں بہنیں بھائی سے ملتی رہی ہیں اور باہر آ کر میڈیا کو بھائی سے ملاقات میں ہونے والی گفتگو بتاتی ہیں اور اپنے اس خونی رشتے کو اپنی ذاتی شہرت اور سیاست چمکانے کا ذریعہ بھی بنائے ہوئے ہیں۔ بہنیں ہی بتاتی ہیں کہ بھائی پر کیا گزر رہی ہے جس کو وہ بڑھا چڑھا کر میڈیا کو بتاتی ہیں اور یہی باتیں بانی کے بیٹوں تک پہنچتی ہیں جو سنی سنائی ہوتی ہیں۔ بانی کی اسیر اہلیہ کے بیٹے بیٹیوں نے بھی جیل آ کر اپنے سوتیلے والد سے ملاقات نہیں کی یا انھیں ان کی والدہ نے منع کیا ہوگا جب کہ قانونی طور بانی ان کے بھی والد ہیں جن کی حکومت میں وہ بھی بھرپور طور فائدے اٹھاتے رہے تھے اور وزیر اعظم کی بہن علیمہ خان پر بھی کرپشن کے بعینہ الزامات لگے تھے۔
بانی کی بہنیں ہی اپنے بھائی کی صورت حال باہر لانے کا ذریعہ ہیں اور کبھی کبھی بعض وکیلوں نے باہر آ کر بانی سے متعلق غلط معلومات میڈیا کو دیں جن میں بہت کچھ بے بنیاد بھی تھا مگر جیل کے حالات بانی ہی جانتے ہیں جو غلط الزامات لگانے اور بعد میں تردید کے عادی رہے ہیں۔ بانی سے غلط سلوک کی خبریں دنیا میں پھیلتی رہتی ہیں اور حکومت سوتی رہتی ہے اب بھی حکومتی ترجمان کی جانب سے ادھوری تردیدیں دی گئیں۔ بانی کے بیٹوں کو اصل حقائق نہیں بتائے گئے۔
سرکاری تردیدوں پر ملک میں ہی یقین نہیں کیا جاتا اس لیے حکومت کو حقائق بتانے کے لیے ملکی و غیر ملکی میڈیا کے غیر جانبدار افراد کو بانی کی قید کے حالات دیکھنے کا موقعہ دینا چاہیے جو باہر آ کر دنیا کو اصل حقائق اور حکومت کی سہولیات کا بتائیں۔ حکومت اس سلسلے میں الزامات پر خاموش رہتی ہے یا فوری وضاحت جاری نہیں کرتی جس سے جھوٹ پھیلتا رہتا ہے اور حقائق دب جاتے ہیں جس کی ذمے دار خود حکومت ہے جو اکثر اپنے آپ میں مگن رہتی ہے۔