جھوٹ ; معاشرتی تباہی و بربادی کا سبب

’’یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس حوالے سے وہ تمہیں سچا سمجھتا ہے، حال آں کہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘


ناپ تول میں کمی، ملاوٹ، چوری، سُود، جُھوٹ،رشوت، منافقت،زنا، عریانی،فحاشی، قتل وغارت ہم ہر اعتبارسے گراوٹ کا شکار ہیں۔ فوٹو: فائل

لفظ جھوٹ کو عربی زبان میں کذب کہتے ہیں۔ خلافِ واقعہ کسی بات کی خبر دینا، چاہے وہ خبر دینا جان بوجھ کر ہو، یا غلطی سے ہو، جھوٹ کہلاتا ہے۔ (المصباح المنیر) اگر خبر دینے والے کو اس بات کا علم ہو کہ یہ جھوٹ ہے، تو وہ گناہ گار ہوگا، پھر وہ جھوٹ اگر کسی کے لیے ضرر کا سبب بنے، تو یہ گناہِ کبیرہ میں شمار کیا جائے گا۔

اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان کوئی بات بلاتحقیق کے اپنی زبان سے نہ نکالے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے، تو پھر اس کی جواب دہی کے لیے تیار رہے۔ ارشادِ خداوندی کا مفہوم ہے:

’’اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل درآمد مت کیا کرو، کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہوگی۔‘‘

’’وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے۔‘‘

یعنی انسان کوئی کلمہ جسے اپنی زبان سے نکالتا ہے، اسے یہ نگراں فرشتے محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہ فرشتے اس کا ہر ایک لفظ لکھتے ہیں، خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر یا شر ہو یا نہ ہو۔

رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’انسان بعض اوقات کوئی کلمۂ خیر بولتا ہے، جس سے اﷲ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، مگر یہ اس کو معمولی بات سمجھ کر بولتا ہے، اس کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ثواب کہاں تک پہنچا کہ اﷲ تعالیٰ اس کے لیے اپنی رضائے دائمی قیامت تک کی لکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح انسان کوئی کلمہ اﷲ کی ناراضی کا (معمولی سمجھ کر) زبان سے نکال دیتا ہے، اس کو گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ و وبال کہاں تک پہنچے گا ؟ اﷲ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائمی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں۔ ‘‘ (ابن کثیر)

مندرجہ بالا قرآنی آیات میں جھوٹ اور بلا تحقیق کسی بات کے پھیلانے کی قباحت و شناعت بیان کی گئی ہے، اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی اس بدترین گناہ کی قباحت و شناعت کھلے عام بیان کی گئی ہے۔

حضرت صفوان بن سلیمؓ بیان کرتے ہیں، مفہوم: اﷲ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا: کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا’’ہاں۔‘‘ پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ نہیں۔‘‘

ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو رسول کریم ﷺ نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے۔ مفہوم: ’’جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آں کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو دھوکا دے۔ اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے۔‘‘

جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، تو رحمت کے فرشتے اس سے دور ہوجاتے ہیں۔ جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے دور ہوجاتا ہے۔

نبی ﷺ نے جھوٹ کو فسق و فجور اور گناہ کی طرف لے جانے والی بات شمار کیا ہے:

 مفہوم: ’’یقیناً! جھوٹ برائی کی راہ نمائی کرتا ہے اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، تا آں کہ اﷲ کے یہاں کذّاب (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے۔‘‘

رسولِ اکرم ﷺ نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیا ہے۔

مفہوم: ’’یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس حوالے سے وہ تمہیں سچا سمجھتا ہے، حال آں کہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘ (سنن ابو داؤد)

حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’کیا میں تمہیں وہ گناہ نہ بتلاؤں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں؟ یہ تین بار فرمایا۔ پھر صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: جی! اے اﷲ کے رسول ﷺ! پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اﷲ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر آپؐ بیٹھ گئے، جب کہ آپ ﷺ (تکیہ پر) ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایا: ’’خبردار! اور جھوٹ بولنا بھی۔‘‘

صرف یہی نہیں کہ ایسا جھوٹ جس میں فساد و بگاڑ اور ایک آدمی پر اس جھوٹ سے ظلم ہو رہا ہو، وہی ممنوع ہے، بلکہ لطف اندوزی اور ہنسنے ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولنا ممنوع ہے۔

اﷲ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:

’’وہ شخص برباد ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے، تاکہ اس سے لوگ ہنسیں، لہٰذا وہ جھوٹ تک بول جاتا ہے، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو۔‘‘

شریعتِ مطہرہ اسلامیہ میں جھوٹ بولنا کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ اور حرام ہے، جیسا کہ قرآن و احادیث کی تعلیمات سے ثابت ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم:

’’پس جھوٹ افترا کرنے والے تو یہی لوگ ہیں، جو اﷲ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے۔‘‘ (النحل)

’’اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے، ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام ہے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اﷲ پر جھوٹی تہمت لگادو گے، بلاشبہ! جو لوگ اﷲ پر جھوٹ لگاتے ہیں، وہ فلاح نہ پائیں گے۔‘‘ (سورہ النحل)

چند مواقع پر جھوٹ کی اجازت

شیخ الاسلام ابُوزکریا محی الدین یحییٰ بن شرف نوویؒ اپنی مشہور کتاب: ’’ریاض الصّالحین‘‘ میں ’’باب بیان ما یجوز من الکذب‘‘ کے تحت رقم طراز ہیں:

’’آپ جان لیں کہ جھوٹ اگرچہ اس کی اصل حرام ہے، مگر بعض حالات میں چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بات چیت مقاصد (تک حصول) کا وسیلہ ہے، لہٰذا ہر وہ اچھا مقصد جس کا حصول بغیر جھوٹ کے ممکن ہو، وہاں جھوٹ بولنا حرام ہے۔ اگر اس کا حصول بغیر جھوٹ کے ممکن ہی نہ ہو، وہاں جھوٹ بولنا جائز ہے۔ پھر اگر اس مقصد کا حاصل کرنا ’’مباح‘‘ ہے، تو جھوٹ بولنا بھی مباح کے درجے میں ہے۔ اگر اس کا حصول واجب ہے تو جھوٹ بولنا بھی واجب کے درجے میں ہے۔ چناں چہ جب ایک مسلمان کسی ایسے ظالم سے چھپ جائے، جو اس کا قتل کرنا چاہتا ہے، یا پھر اس کا مال چھیننا چاہتا ہے اور اس نے اس مال کو چھپا کر کہیں رکھ دیا ہو، پھر ایک شخص اس حوالے سے سوال کیا جاتا ہے (کہ وہ شخص یا مال کہاں ہے؟) تو یہاں اس (شخص یا مال) کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے۔ اسی طرح کسی کے پاس امانت رکھی ہوئی ہو، ایک ظالم شخص اس کو غصب کرنا چاہتا ہے، تو یہاں بھی اس کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے۔ زیادہ محتاط طریقہ یہ ہے کہ ان صورتوں میں ’’توریہ ‘‘ اختیار کیا جائے۔ توریہ کا مطلب یہ ہے کہ (بولنے والا شخص) اپنے الفاظ سے ایسے درست مقصود کا ارادہ کرے، جو اس کے لحاظ سے جھوٹ نہ ہو، اگرچہ ظاہری الفاظ اور مخاطب کی سمجھ کے اعتبار سے وہ جھوٹ ہو۔ اگر وہ شخص ’’توریہ‘‘ سے کام لینے کے بہ جائے صراحتاً جھوٹ بھی بولتا ہے، تو یہ ان صورتوں میں حرام نہیں ہے۔‘‘

 (باب بیان ما یجوز من الکذب، ریاض الصالحین)

جھوٹ اعتماد و یقین کو ختم کردیتا ہے

مذکورہ بالا استثنائی صورتوں کے علاوہ ہمیں جھوٹ بولنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، لہٰذا جھوٹ بولنا دنیا و آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔ اﷲ رب العالمین اور نبی کریم ﷺ کی ناراضی کا باعث جھوٹ ہے۔ جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے، جو دوسری بیماریوں کے مقابلے میں بہت عام ہے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اس جھوٹ سے انھوں نے کیا پایا اور کیا کھویا ؟ جب لوگوں کو جھوٹے شخص کی پہچان ہوجاتی ہے، تو لوگ اس کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ جھوٹ بولنے والا شخص کبھی حقیقی پریشانی میں بھی ہوتا ہے، مگر سننے والا اس کی بات پر اعتماد نہیں کرتا۔ ایسے شخص پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے اعتماد و یقین کو مجروح کرچکا ہے۔

حرفِ آخر

جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ لوگوں کے درمیان لڑائی، جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ دو آدمیوں یا گروہوں یا جماعتوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے۔ اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے۔ اگر ہم ایک صالح معاشرہ کا فرد بننا چاہتے ہیں، تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے آگاہ اور باخبر کریں، جھوٹے لوگوں کی خبر پراعتبار نہ کریں، کسی بھی بات کی تحقیق کے بغیر اس پر ردّعمل نہ دیں۔ اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے کرتا ہے تو اس سے اس بات کے ثبوت کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ ثبوت پیش نہیں کرپاتا تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں اور اسے دھتکار دیں۔

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت ناپسند نہیں تھی، چناں چہ آپ ﷺ کو اگر کسی کے حوالے سے یہ معلوم ہوجاتا کہ وہ دروغ گو ہے، تو آپ ﷺ کے دل میں کدورت بیٹھ جاتی اور اس وقت تک آپ ﷺ کا دل صاف نہیں ہوتا، جب تک یہ معلوم نہ ہوجاتا کہ اس نے اﷲ سے اپنے گناہ کی نئے سرے سے توبہ نہیں کرلی ہے۔

 (مسند احمد، بہ حوالہ احیاء العلوم)

مقبول خبریں