بھارتی شہر اُدے پور میں سال نو کی پارٹی کے بعد لفٹ دینے کے بہانے سی ای او اور ساتھی نے آئی ٹی کمپنی کی منیجر کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق آئی ٹی کمپنی کی منیجر کو پارٹی کے بعد گھر ڈراپ کے بہانے گاڑی میں بٹھایا گیا تھا۔
گاڑی میں کمپنی کے سی ای او، خاتون ایگزیکیٹو اور ان کے شوہر بھی تھے۔ جنھوں نے راستے میں سے نشہ آور اشیا بھی لیں۔
متاثرہ خاتون منیجر نے بتایا کہ رات ایک بجے لفٹ دی اور راستے میں سے کچھ چیزیں لیکر مجھے پلائیں جس سے میں بے ہوش ہوگئی۔
پولیس کو دیئے گئے بیان میں خاتون نے بتایا کہ مجھے صبح 9 بجے گھر پر چھوڑا گیا جب کہ میں نیم بے ہوشی کی حالت میں تھی۔
خاتون منیجر نے مزید بتایا کہ مکمل ہوش میں آنے پر دیکھا کہ نہ صرف میری کچھ ذاتی اشیا غائب ہیں بلکہ جسم پر چوٹوں کے نشانات محسوس کیے۔
متاثرہ خاتون نے یہ بھی بتایا کہ مجھے اندازہ ہوگیا کہ میرے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی ہے۔ اس لیے اگلی صبح پولیس میں شکایت درج کرانے آئی ہوں۔
پولیس نے کمپنی کے سی ای او جے یش، ان کے ساتھی گورو اور گورو کی اہلیہ شلپا کو گرفتار کر لیا ہے۔
ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں بھی خاتون منیجر کے جسم پر چوٹوں کے نشانات کی تصدیق ہوئی ہے جسے پولیس نے اجتماعی زیادتی کے ابتدائی شواہد قرار دیا ہے۔
پولیس نے گاڑی میں نصب ڈیش کیم کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز کا بھی جائزہ لیا اور ٹھوس شواہد کے ساتھ ملزمان کو عدالت میں پیش کر دیا۔
بھارت میں دفاتر پر خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی اور زیادتی ایک طویل عرصے سے ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔
1997 میں وشاکھا کیس کے بعد سپریم کورٹ نے کام کی جگہ پر خواتین کے تحفظ کے لیے رہنما اصول جاری کیے جن کی بنیاد پر بعد میں 2013 میں خواتین کے تحفظ سے متعلق قانون نافذ کیا گیا۔
اس کے باوجود مختلف شعبوں، خصوصاً کارپوریٹ، آئی ٹی، میڈیا اور فیکٹری سیکٹر میں ہراسانی اور جنسی تشدد کے واقعات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں۔
2018 میں می ٹو تحریک کے دوران متعدد خواتین نے بااثر افراد کے خلاف ہراسانی کے الزامات عائد کیے، جس سے اس مسئلے کی سنگینی مزید اجاگر ہوئی۔