اک ذرا سی ’’ماں‘‘کھوئی ہے

تم پوچھو ہم نہ بتائیں ایسے تو حالات نہیں اک ذرا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں


سعد اللہ جان برق December 27, 2025
[email protected]

کمال ہوگیا بلکہ یوں کہیے کہ ہم نے کمال کرکے دکھا دیا۔ ہوا یوں کہ ایک عرصے سے ایک’’تحقیقی پروجیکٹ‘‘ہمارے پیش نظر تھا۔لیکن کرنٹ پروجیکٹ آکر اس پروجیکٹ کو ’’موخر‘‘کرتے رہے تھے۔

دراصل اب لوگ جان گئے مان گئے ہیں اور ہمیں پہچان گئے ہیں کہ ہم بڑی مستند اکیڈمیوں کے سند یافتہ اور تفتیشی اداروں کے تربیت یافتہ محقق ہیں اور ہمارے’’ٹٹوئے تحقیق‘‘ کے بارے میں بھی لوگوں کو پتہ چل گیا ہے کہ بقول رحمان بابا، بہادر لوگ جب کسی طرف چل پڑتے ہیں تو پھر یہ نہیں دیکھتے کہ آگے کنواں ہے یا کھائی۔اتنے عرصے میں آپ کو یہ پتہ تو چل ہی گیا ہوگا کہ ہم سچے اور بہت اچھے پاکستانی ہیں اور اچھے سچے پاکستانیوں کی طرح پڑوسی ملک کے لیڈروں کو تو سخت ناپسند کرتے ہیں لیکن ان چینلوں اور فلموں اور ان میں جلوہ گر ہونے والی حسینائیں اور پلاپلیسائیں ناپسند کرنے کی چیزیں ہی نہیں تو ان کو کیسے ناپسند کرسکتے ہیں۔لیکن کچھ عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان حسیناؤں ، مہیلاؤں اور پلا پلسوں میں حیرت انگیز یکسانیت آرہی ہے ، ایسا لگتا ہے جیسے سب کی سب جڑواں بہنیں ہوں یا ایک کارخانے کی پراڈکٹ ہوں، ایک ہی سانچے اور قالب سے نکل رہی ہوں۔

 ایک جیسے انگ، ایک جیسی حرکات و سکنات ۔’’جڑواں‘‘تو سب ہو نہیں سکتیں کیونکہ ایسی’’مدرانڈیا‘‘ ممکن ہی نہیں جس کی اتنی ساری سپتریاں اتنی یکساں ہوں۔اس لیے ایسا کوئی کارخانہ ہی ہوگا جہاں سے یہ ایک جیسی پراڈکٹس دھڑا دھڑ نکل رہی ہیں اور ہمیں نشانہ بنا رہی ہیں اور پھر جب سے یہ ٹی وی چینل آئے ہیں تب تو فلموں سے بھی زیادہ اتیا چار کرنے لگی ہیں بلکہ بقول ایک میلاشناس کے، سب کی خوش ذوقی،  خوش خلقی اور خوشبوئیں بھی ایک جیسی ہیں۔اس دانا دانشور کا کہنا ہے کہ خوش پوش خاتون وہ ہوتی ہے جسے پتہ ہو کہ کیا کیا ’’نہیں پہننا‘‘ چاہیے اور کہاں کہاں نہیں پہننا چاہیے ۔لیکن مسئلہ تو پھر بھی ہے کہ آخر یہ میلائیں اتنی زیادہ خوش پوش اور یکساں پوش یا ناپوش کیوں ہیں ۔

بات گھوم پھر کر اسی خیال پر جمتی ہے کہ یقیناً ان لوگوں نے کوئی ایسا کارخانہ قائم کیا ہے جہاں سے ایک ہی ماڈل کی یکساں چیزیں بن بن کر نکل رہی ہیں، پھر اچانک ہمیں ایک’’کلیو‘‘ (clue)ملا اور اس پر فوکس کیا وہ کلیو یعنی راز یا نشان یہ تھا کہ جسم کے اعضا اور لباس کے ساتھ ان حسیناؤں میں ایک اور خاص قدر مشترک بھی ہے اور وہ ان سب کا منہ بھی بالکل ایک جیسا ہوتا ہے، سب کے اوپر کے دانت نیچے کے دانتوں سے کچھ آگے نکلے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جب وہ ہنستی ہیں اور ہنسنا تو ان کو لازم ہوتا ہے تب یہ ہاتھ کو منہ کے آگے تان لیتی ہیں بلکہ ہاتھ پہلے تانتی ہیں ہنستی بعد میں ہیں جیسے

سجناں نے بوہے اگے چک تان لی

دانتوں کا چھجا اور اس کے آگے ہاتھ کا چھجا۔ انڈسٹریل اور کمرشل لحاظ سے یہ بہت بڑا فالٹ تھا، ڈی فیکٹ تھا اگر یہ کسی خاص کارخانے کا مال ہوتیں تو یہ ڈیفیکٹ اب تک دور کیا جاچکا ہوتا۔لیکن اب تک اسے دور نہیں کیا جاسکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ڈیفیکٹ بھی قدرتی ہے۔اور یہ خوش لباس،خوش دھن اور خوش بدن مہلائیں بھی قدرتی ہیں۔اب سوال یہ تھا کہ اگر یہ عیب قدرتی ہے اور دانتوں کا یہ چھجا ہنستے ہوئے اور اس کے سامنے ہاتھ کا چھجا کیوں؟۔ایک دن ہم اپنے غور کے ٹینک یعنی شکستہ چارپائی میں اسی مسئلے کو لیے ہوئے تیر رہے تھے کہ اچانک ایک پرانا منظر ذہن کی اسکرین پر کوندا۔دو ایسی ہی خوش لباس،خوش بدن، خوش دہن اور خوش نما خواتین بیٹھی ہوئی اپنے اپنے بوائے فرینڈز اور بیس فرینڈز کی تعداد اور معلومات آپس میں شیئر کررہی تھیں کہ کمرے میں ایک اور ایسی ہی پراکٹ داخل ہوئی اور ان میں سے ایک خاتون سے مخاطب ہوکر بولی۔مما میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ڈیٹ پر جا رہی ہوں۔ مما نے کہا مگر کل تو تم کہہ رہی تھی کہ تمہارا ’’بریک اپ‘‘ہوگیا ہے۔

وہ تو پرانے والے سے ’’کل‘‘ ہوگیا تھا ’’آج‘‘ یہ نیا ہے،بیٹی نے فخر سے بتایا۔اچھا اچھا جاؤ۔بیٹی چلی گئی تو’’مما‘‘ سے دوسری خاتون بولی۔یہ کیا باجی۔تمہاری اتنی بڑی بیٹی؟ہم تو تمہیں اپنی طرح ’’اٹھارہ‘‘ کی سمجھ رہی تھیں جب کہ اٹھارہ کی تمہاری بیٹی ہے اور اسے اب تک چھپایا کہاں تھا۔ دوسری خاتون قہقہہ لگاکر بولی۔میں اب بھی اٹھارہ کی ہوں۔میرے فگر دیکھو۔ اٹھارہ سے زیادہ لگتی ہوں کیا۔اور یہ دوسرے شہر میں میری چھوٹی بہن بن کر پڑھ رہی ہے، یہی تو معمہ ہے باجی، آپ بھی اٹھارہ کی اور بیٹی بھی اٹھارہ کی جب کہ آپ چھ بوائے فرینڈز کے ساتھ دوستی کر چکی ہیں۔مما نام کی باجی نے بتایا کہ یہ اس لیے کہ میں اپنے فگر کا سختی سے خیال رکھتی ہوں۔جب بھی میری اولاد ہوتی ہے میں انھیں بوتل کے دودھ پر نوکروں کی پالن پوسن پر الگ کمرے میں رکھتی ہوں۔

سمجھ گئی۔لیکن اس کے اوپر والے دانت ذرا باہر کو نکلے ہوئے ہیں یہ بوتل کے دودھ کی وجہ سے۔یہ مکالمہ یاد آتے ہی سارا معاملہ ہماری سمجھ میں آگیا چھجانما دانتوں کا مسئلہ حل ہوگیا تو سارے مسئلے حل ہوگئے اور ہماری سمجھ دانی میں پوری کہانی ہماری زبانی اور نئی نہ کہ پرانی سمجھ میں آگئی۔کہ ان خوش لباس،خوش فگر اور خوش منظر خواتین بلکہ لیڈیز کا پس منظر کیا ہے۔بوتل کا دودھ اور فگر کی فکر۔مطب یہ کہ انسانیت بلکہ نسوانیت نے اس دور میں یہ جو بہت کچھ پایا ہے بوتل کے دودھ کی وجہ سے پایا ہے، بوتل زندہ باد۔ دودھ پایندہ باد اور دانتوں کا چھجا آیندہ باد۔اس سے یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا کہ ہمارے ہاں کی خواتین اتنی تیزی سے پڑوس کی خواتین جیسی کیوں ہوتی جا رہی ہیں اور معاشرے میں تیکھے فگر اور دانتوں کے چھجے کیوں بڑھ رہے ہیں۔پھر اس موضوع پر ذہن نے اڑان بھری تو بھرتا چلا گیا۔

پڑی لکھی خواتین کے اس نئے رجحان کے معاشرے پر بہت مثبت اثرات پڑرہے تھے ایک تو معاشرہ ان خوش نما،خوش لباس،خوش بدن اور ’’خوش فگر‘‘ خواتین کی وجہ سے باغ وبہار اور گل و گلزار ہوتا جارہا ہے، فلموں اور ٹی وی چینلوں کے پروگرام بھی دلکش،دل کھینچ اور دل آویز ہوگئے ہیں دفاتر کی رونق بھی بڑھ گئی ہے۔ یہاں تک کہ اشتہارات بھی اتنے پرکشش ہوگئے ہیں کہ اکثر لوگ پروگراموں سے زیادہ اشتہارات دیکھنے کے لیے ٹی وی دیکھتے ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں، یوں کہیے کہ چینل اور ٹی وی ایک طرح سے درسگاہیں بھی ہوگئے ہیں۔اور یہ سب کچھ ہمیں ملا ہے تو بہت سستا ملا ہے۔صرف ایک ’’ماں‘‘ کے بدلے۔انسان نے ایک فضول سی ماں کھودی ہے اور اتنے کچھ کے بدلے ایک ’’ماں‘‘ سے محروم ہونا کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔یا یوں کہیے کہ ماں کے بدلے ’’بوتل‘‘ اچھا نفع بخش سودا ہے۔ سوگز زمین کے بدلے بیابان بُرا نہیں۔

تم پوچھو ہم نہ بتائیں ایسے تو حالات نہیں

اک ذرا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں

مقبول خبریں