ماضی کو بھول جائیں

محمود خان اچکزئی نے 80ء کی دہائی میں ایم آر ڈی کی آئین کی بحالی کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ انھیں طویل عرصے تک زیرِ زمین رہنا پڑا



اچکزئی خاندان نے انگریز راج کے خلاف تاریخی جدوجہد کی ہے اور پاکستان بننے کے بعد جمہوریت کی بحالی، ون یونٹ کا خاتمہ اور قوموں کے حقوق کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ 70ء کی دہائی میں بلوچستان کے پختون علاقے کو صوبہ نہ بنانے کے مسئلے پر عبدالصمد اچکزئی خان نیشنل عوامی پارٹی سے علیحدہ ہوگئے تھے ۔ عبدالصمد اچکزئی 1973 ء میں بم دھماکے میں انتقال کرگئے تھے تو پھر ان کے صاحبزادے محمد خان اچکزئی نے پختون ملی عوامی پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ جب افغانستان میں کامریڈ نور محمد تراکئی کی قیادت میں انقلاب برپا ہوا تو محمود اچکزئی نے اس عوامی انقلاب کی بھرپور حمایت کی تھی، انھیں اس حمایت کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔

محمود خان اچکزئی نے 80ء کی دہائی میں ایم آر ڈی کی آئین کی بحالی کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ انھیں طویل عرصے تک زیرِ زمین رہنا پڑا۔ محمود خان اچکزئی اور حاصل خان بزنجو نے 90ء کی دہائی سے میاں نواز شریف کی مسلم لیگ ن کی بھرپور حمایت کی۔ اس مؤقف کی بناء پر ان کی جماعت زیرِ عتاب آئی۔ جب میاں نواز شریف دوسری دفعہ وزیر اعظم کے عہدے پر تعینات ہوئے تو محمود اچکزئی اور حاصل بزنجو نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں آئین میں کی جانے والی ترامیم کے خاتمے کے لیے ایک مہم شروع کی تھی۔ یہ دونوں رہنما پیپلز پارٹی کی چیئرمین بے نظیر بھٹو سے مذاکرات کے لیے لندن گئے تھے۔

اگرچہ ان کی کوششوں کا فوری نتیجہ برآمد نہ ہوسکا تھا مگر پھر وزیر اعظم نواز شریف اور قائد حزب اختلاف بے نظیر بھٹو شہید کے درمیان آئین میں کی گئی 8ویں ترمیم کی شق 58(2)B کے خاتمے پر اتفاق ہوا تھا تو صدر کا منتخب اسمبلیاں توڑنے کا اختیار ختم ہوا۔ جب پرویز مشرف نے نواز شریف کی قانونی حکومت کو برطرف کیا تو محمود اچکزئی اور حاصل بزنجو نے اس برطرفی کے خلاف آواز اٹھائی تھی، یہی وجہ تھی کہ جب 2008میں پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتیں صدر پرویز مشرف کے مواخذے پر تیار ہوئی تھیں تو میاں نواز شریف نے نئے صدرکے لیے بلوچ رہنما عبد الحئی بلوچ اور محمود خان اچکزئی کے نام پیش کیے تھے۔ محمود خان اچکزئی نے پاناما لیکس کے مقدمے میں میاں نوازشریف کی نااہلی کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

جب 2013 میں میاں نواز شریف پھر وزیر اعظم منتخب ہوئے تو محمود اچکزئی کے بھائی کو بلوچستان کا گورنر بنایا گیا۔ ایک زمانے میں تحریک انصاف کے قائد اور بانی اپنی تقریر میں میاں برادرز کے ساتھ ساتھ محمود خان اچکزئی کا بھی مذاق اڑاتے تھے مگر 2023کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے بلوچستان میں اتحادی تبدیل ہوگئے اور محمود اچکزئی دور چلے گئے ۔ اگرچہ ان انتخابات میں محمود اچکزئی قومی اسمبلی کی نشست حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوئے مگر وہ وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ دینے والوں میں شامل نہیں تھے۔

تحریک انصاف نے صدارتی انتخاب کے لیے آصف زرداری کے مقابلے میں انھیں صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا۔ محمود خان اچکزئی نے اس موقع پر قومی اسمبلی میں انتخابات کی شفافیت پر زور دار تقریر کی تھی۔ جب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سزا دی اور الیکشن کمیشن نے ان کو قومی اسمبلی کی اہلیت کے لیے نااہل قرار دیا تو تحریک انصاف اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے محمود خان اچکزئی کو قائد حزب اختلاف نامزد کیا تھا مگر کئی ماہ گزرنے کے باوجود قومی اسمبلی کے اسپیکر محمود خان اچکزئی کو قائد حزب اختلاف تسلیم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ اس سال تحریک انصاف کی پوری قیادت کو 9 مئی کو دہشت گردی کے مقدمات میں 10 ، 10 سال سزائیں ہوئی ہیں۔ اس صورتحال میں تحریک انصاف کے حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں نے تحریک تحفظ آئینِ پاکستان کا فورم تشکیل دیا اور محمود خان اچکزئی کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

تحریک تحفظ آئینِ پاکستان کی گزشتہ دنوں ہونے والی گول میز کانفرنس میں محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی تنازعات کے حل کے لیے میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور دیگر قائدین بیٹھ کر مذاکرات کریں۔ انھوں نے کہا کہ ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے سب ایک دوسرے کو معاف کرنے اور آگے بڑھنے کی روایت قائم کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جمہوری ڈائیلاگ کے لیے تیار ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ اگر تحریک انصاف کے بانی سے ملاقات کی اجازت دی جائے تو پھر مذاکرات فوری طور پر شروع ہوسکتے ہیں۔

اچکزئی کی یہ پیشکش جمہوریت کے استحکام کے لیے ہے۔ اگرچہ 2024 کے انتخابات کے بعد پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں آچکی ہیں۔ وفاق میں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ ملک کا نظام چلا رہی ہے۔ دو صوبوں میں پیپلز پارٹی، ایک صوبے میں مسلم لیگ ن اور ایک صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے۔ تحریک انصاف کے اڈیالہ جیل میں بند قائد کے ایک اشارے پر پختون خوا کے نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوچکا ہے مگر مجموعی صورتحال، امن و امان، معیشت اور بین الاقوامی منظر نامہ پر حالات بہت زیادہ سازگار نظر نہیں آتے۔

امریکی حکومت نے گزشتہ دنوں نیشنل National Security Strategy (NSS) کا اجراء کیا ۔ ٹرمپ انتظامیہ کی اس نئی پالیسی میںچین سے تعلقات کا تو ذکر ہے مگر اس پالیسی میں پاکستان اور افغانستان کا واضح ذکر نہیں ہے۔ خارجہ امور کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ اس پالیسی کے تحت امریکا نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ چین ایک بڑی قوت ہے، یوں یونی پولرکا دور ختم ہوچکا ہے مگر پاکستان اور افغانستان اس پالیسی میں نظر نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کی زیادہ توجہ اب ان ممالک پر نہیں ہوگی۔ ایک رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ امریکی کانگریس جس میں بھارت کی مضبوط لابی صدر ٹرمپ کے بھارت کے خلاف اقدامات کو مبہم بنانے کی کوششیں کر رہی ہے اور ان ہی کوششوں کے نتیجے میں بھارت اور امریکا کے درمیان فوجی سامان کی فراہمی کا معاہدہ ہوا تھا۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان نے امریکی شرائط کے مطابق غزہ میں فوج نہ بھیجی تو پھر پاکستان امریکا کا فیورٹ نہیں رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی امریکا نے ویزا کی پالیسی سخت کردی ہے۔ افغانستان کی سرحد سے جنگجوؤں کی دہشتگردی کی مسلسل کارروائیوں کے بعد طورخم کی سرحد بند ہے۔ سرحد بند ہونے کے ساتھ دونوں ممالک کے شہریوں کی برآمدات رکی ہوئی ہے۔ تجارت بند ہونے سے جہاں افغانستان کی معیشت متاثر ہوئی ہے وہاں خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے تاجر بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اس سے پاکستانی تاجروں کا اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستانی تاجر مسلسل بارڈر کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سابقہ قبائلی علاقوں سے لے کر پشاور تک دہشتگردی کی وارداتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ پختون خوا کا دارالحکومت بہت برسوں بعد خودکش حملوں کی زد میں ہے۔ رجعت پسند عناصرکا پسندیدہ مشغلہ لڑکیوں کے اسکول مسمارکرنا رہ گیا ہے۔

رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبے بلوچستان میں انارکی کی صورتحال ہے۔ کوئٹہ جانے والے تمام راستے مسلسل بند رہتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کی حکومتیں اپنی سرحد پر ڈاکوؤں کی سرکشی کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ کراچی کے تاجروں کو بھتے کی پرچیاں ملتی ہیں۔ امن و امان کے ساتھ معاشی صورتحال مسلسل خراب ہے۔ بے روزگاری کی شرح بڑھتی جا رہی ہے، یہ شرح 7فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عام آدمی کی فی کس آمدنی بھی کم ہوگئی ہے۔ ایک آرٹیکل کے مطابق 90ء کی دہائی میں پاکستان کی جی ڈی پی بنگلہ دیش اور بھارت سے بہت آگے تھی مگر اب پاکستان کی جی ڈی پی ان دونوں ممالک سے بہت کم رہ گئی ہے۔ اگرچہ حکمران ہر ہفتے کسی نہ کسی بیرونِ ملک دورے پر رہتے ہیں مگر کئی ممالک اپنی ویزا پالیسی تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

اس صورتحال سے لاکھوں شہریوں کا مستقبل خطرے میں پڑگیا ہے۔ حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں مدعو کرنے کے لیے نئے منصوبے شروع کیے ہیں مگر خراب طرزِ حکومت عدم شفافیت پر مبنی نظام کی بناء پر بڑے پیمانے پر صنعتی ادارے بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔ بجلی اورگیس کی عدم دستیابی نے اشیاء کی پیداوار کی شرح بڑھا دی ہے۔ کئی ماہرین کہتے ہیں کہ چین کی اشیاء نے پاکستان کی مقامی صنعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، یہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر برآمدات نہیں بڑھ سکی ہیں۔ اس صورتحال میں سیاسی بحران کا خاتمہ ضروری ہے۔

محمود اچکزئی کی یہ بات درست ہے کہ تمام فریقین ماضی کو فراموش کردیں اور نئے دورکا آغاز کریں۔ نواز شریف اور فضل الرحمن کو اپنے ساتھی محمود خان اچکزئی کی اس تجویز پر غورکرنا چاہیے، مگر وزیر اعظم شہباز شریف کا ردعمل مثبت ہے، اگرچہ تحریک انصاف مذاکرات کے بارے میں الجھن کا شکار ہے مگر محمود خان اچکزئی کی تجویز کے مطابق فریقین میں مذاکرات ہوجاتے ہیں تو ملک میں سیاسی استحکام آئے گا۔

مقبول خبریں