حکومتی قرضوں کا ریکارڈ

قرض لینے سے زیادہ اس پر بڑھتے ہوئے سود کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ حکومت یہ ریکارڈ توڑتی ہے تو اس کے ساتھ ہی بوڑھے پنشنرز کی کمر ہی ٹوٹ جاتی ہے



رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ وزارت خزانہ کے لیے چند مہینے اورکاغذوں میں معمول کا عرصہ ہیں لیکن پاکستان کی قرضوں کی تاریخ میں جولائی 2025 تا نومبر 2025 وہ مہینے ہیں جہاں حکومت نے قرضوں کا اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا۔ کیونکہ ان 5 ماہ میں وفاقی حکومت نے کل 858 ارب روپے کا قرضہ لیا۔ یہی رقم گزشتہ مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں 741 ارب روپے تھی۔ اس طرح 117 ارب روپے زیادہ قرض لیا گیا۔ سب سے زیادہ رقم جولائی اور اگست میں لی گئی تھی کہا جاتا ہے کہ زیادہ قرضہ لینے کا مقصد بجٹ خسارے کو پورا کرنا ہے۔

ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات اور مالیاتی ضروریات کو مینج کرنا ہے۔ قرض پر یہ انحصار مستقبل کے بجٹ پر ابھی سے مزید دباؤ کا سبب بنے گا اور یہ معاشی خود مختاری کو کم کرے گا اور سود کے بوجھ کو مزید بڑھا دے گا۔ اس طرح ملک پر معاشی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ معیشت جس کے بارے میں حکومتی دعوے ہیں کہ معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ اس آواز کو مدھم کر دے گی اور یہ آواز ان چیخوں میں گم ہو کر رہ جائے گی جو بڑھتے ہوئے قرضوں کے دباؤ کے باعث غریبوں کے گھروں سے بلند ہو رہی ہیں۔

سرکاری کھاتوں کے مطابق یہ بات سمجھنے کی ہے کہ قرضوں کے معاملے میں حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں قرض لینے کے اپنے ہی ماضی کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ہر ماہ کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو ہر ماہ قرض لینے کا ایک رجحان تھا۔

یہ رجحان اعداد و شمار کی شکل میں موجود ہیں اور اعداد ایک ایسا سوال ہے جس کے پیچھے ایک چہرہ ہے اور وہ چہرہ پاکستان کی اکثریت والی غریب عوام کا ہے اور غریب عوام چیخ رہے ہیں کہ اس کے ہاتھ سود کی زنجیروں میں باندھے جا رہے ہیں، یہ سود مہنگائی لے کر آ رہا ہے جس سے ایک غریب مزدور کو کبھی مزدوری ملتی ہے اور کبھی نہیں۔ اس سود کے پیچھے پنشنرز کا وہ کرب چھپا ہوا ہے کہ اب کرایہ ادا کرے یا دوا کی مقدار گھٹا دے۔ اس بے روزگار نوجوان کا چہرہ چھپا ہوا ہے جو اپنے ہاتھ میں روزگار کی لکیر تلاش کر رہا ہے۔

قرض لینا ضروری ہو سکتا ہے۔ پچھلے مالی سال کے 5 ماہ کا ریکارڈ دیکھیں تو اس کے مقابلے میں 117 ارب روپے زیادہ قرض لیا گیا اور یوں حکومت نے اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا ہے اور وہ بھی مزید سود کی تباہ کاریوں کو بڑھانے کا ریکارڈ۔ اگر ریکارڈ توڑنا ہی تھا تو تعلیم، صحت، روزگار، برآمدات اور دیگر شعبوں میں ریکارڈ توڑتے۔ اسکولوں کی بہتری کے ریکارڈ ٹوٹتے۔ اگرچہ اس وقت تعلیم صوبائی حکومت کے پاس ہے اور اس سلسلے میں اسکولوں کی بہتری کے لیے پنجاب حکومت نے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں البتہ حکومت صوبائی حکومتوں کو خصوصی فنڈز فراہم کرکے تعلیم اور صحت و ترقیاتی منصوبوں کا ریکارڈ توڑ سکتی تھی، لیکن پاکستان کی معاشی تاریخ گواہ ہے کہ ہر حکومت نے ہمیشہ آسانی کو چنا ہے اور زیادہ سود پر فوراً آسانی سے قرض لے لیا۔

117 ارب روپے کا زائد قرضہ کوئی معمولی رقم نہیں۔ اس سے لاکھوں افراد کے لیے صحت کی خوشی بانٹی جا سکتی تھی۔ لاکھوں غریب طالب علموں کو پڑھایا جا سکتا تھا، پاکستان میں ہر حکومت جب آتی ہے پچھلی حکومت کی پالیسیوں کو ترک کرکے اپنی نئی پالیسی دیتی ہے لیکن قرض لینا وہ واحد شعبہ ہے جس میں حکومت بدل جاتی ہے۔ وزیر نئے آ جاتے ہیں لیکن قرض لینے کے معاملے میں پچھلی حکومت کا ریکارڈ توڑ دیتے ہیں اور غریب پر ان قرضوں اور سود کا پہاڑ ٹوٹتا ہے کیونکہ بجلی مہنگی، گیس مہنگی، ضروریات زندگی مہنگی یہ سب ریکارڈ بنانے کی فیس ہے۔

قرض لینے سے زیادہ اس پر بڑھتے ہوئے سود کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ حکومت یہ ریکارڈ توڑتی ہے تو اس کے ساتھ ہی بوڑھے پنشنرز کی کمر ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ حکومت ریکارڈ توڑے لیکن اتنا دیکھ لے کہ اس طرح غریب عوام کی کمر ٹوٹنے سے کیسے بچانی ہے۔ کہیں اس کی قیمت پنشنر کو ادا نہ کرنا پڑے۔ 117 ارب روپے زائد قرض کیوں لینا پڑا؟ حکومت اس کی جانچ پڑتال کرے۔ اول تو گزشتہ مالی سال کے 5 ماہ کے 741 ارب روپے کا قرض ہی بہت زیادہ ہے۔

اس پر رواں مالی سال کے 5 ماہ 858 کا قرض غریب عوام پر ناقابل برداشت بوجھ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس قرض کی رقم کو موجودہ مال سال کے باقی مہینوں میں اس قدر کمی لے کر آئیں کہ اس بات کا ریکارڈ قائم ہو جائے کہ پہلے تو قرضوں میں اضافہ ہوتا تھا سود کی ادائیگی میں اضافہ ہوتا تھا، اب اس میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے اور بتدریج اس حد تک کم لے کر جائیں گے تاکہ جامع سرکاری اخراجات کو انتہائی سادہ سے سادہ کردیا جائے۔ ہر اس فضول خرچی کو ختم کر دیا جائے جس کی وجہ سے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔

مقبول خبریں