مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ ان کی حکومتوں میں ’’انتقال اقتدار‘‘ کا کوئی باضابطہ نظام موجود نہیں ہے۔ یہ کسی ایک ملک یا ریاست کی بات نہیں ہے۔ ہم لوگ یعنی اہل اسلام مجموعی طور پر شخصیات کے زیراثر زندگی گزارنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اور ایسے کسی طرح کے اصول کو پنپنے نہیں دیتے جس میں طرز حکمرانی کی بہتری اور حقِ حکمرانی مستند ہو جائیں۔
یہ المیہ ہمیں گھن کی طرح کھا گیا ہے۔ تمام مسلمان ممالک کی موجودہ کیفیت یکساں ہے۔ سنجیدگی سے غور کیا جائے‘ تو کم از کم چودہ سو برس میں یہ مسئلہ کسی طرح بھی حل نہیں ہو پایا۔ قیامت یہ بھی ہے کہ ہم نے ہر اس سوچ کی بیخ کنی کی‘ جو نظام حکومت میں کسی قسم کی جدت لا سکتی تھی۔ مشرق وسطیٰ کی موجودہ تمام ریاستیں‘ شفاف حکمرانی سے کوسوں دور ہیں۔ اوراسی کیفیت کو ظاہر کرتی ہیں جن کے متعلق گزارشات پیش کر رہا ہوں۔ چلیے‘ برصغیر کے متعلق عرض کرتا ہوں ۔
کہا جاتا ہے کہ یہ یہاں ایک ہزار برس ‘ مسلمانوں کی حکومت رہی۔ یہ بھرپور طریقے سے جھوٹ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دس صدیوں پر محیط عرصے پر چند مسلمان خاندان حکومت میں رہے۔ ان بادشاہوں کا رہن سہن‘ پہناوا‘ کھانا پینا اور رہنے کا پرتعیش طریقہ‘ عام لوگوں کے گمان تک سے باہر تھا۔ جن میں ہندو اور مسلمان سب شامل ہیں۔ ہزار برس کی تاریخ میں‘ عام رعایا یعنی عام لوگوں کی زندگی حد درجہ ورشت تھی۔لوگوں کے پاس تو ملکیتی جائداد کا تصور تک نہیں تھا۔ بادشاہ کا محل ہر پر تعیش طرز سے سیراب تھا۔اس کے برعکس رعایا‘ جانوروں کی زندگی گزار رہی تھی۔ اس کے بالکل برعکس ‘گزشتہ تین چار صدیوں میں ‘ مغربی خطہ نے ایسے زرخیز دماغ پیدا کیے ۔ جنھوںنے انسان پر انسان کی حکومت کے پیچیدہ ترین مسئلے کو حل کرنے کی مخلصانہ کوشش کی۔
جیسے ہی انتقال اقتدار کا معاملہ‘ خاندانی استحقاق سے نکل کر عام آدمی کی حدود میں داخل ہوا۔انسانی سوچ کی بلندی کو مہمیز لگ گئی۔ ’’فری تھنکنگ‘‘ نے ایسے شاندار کارنامے انجام دیے۔ کہ مغربی ممالک لوگوں کے لیے دنیاوی جنت کا نمونہ بن کر رہ گئے۔ مغرب میں انسانی سوچ پر پہرے لگا نے کے کلیہ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ صرف محدود مدت میں وہ ترقی کی بلندیوں کو پہنچ گئے۔ اور ہاں! انھوں نے مذہب اور ریاستی نظام کو مکمل طور پر علیحدہ کر دیا۔ یہ معمولی کام نہیں تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ پاپائیت اتنی طاقتور تھی کہ ان کے پاس اپنی فوج ہوا کرتی تھی۔ مذہبی پیشوا‘ جسے چاہتے‘ قتل کرنے کا اختیار رکھتے تھے۔ عورتوں کو چڑیل ثابت کر کے زندہ جلانا عام سی روایت تھی۔ مطلب یہ کہ ریاست اور مذہب کے ملاپ نے جبرکو قانون کا درجہ دے دیا تھا۔ جن عظیم فلسفیوں اور انسانوں نے اس ظلم کی ذہنی اور عملی مخالفت کی‘ ان کا دراصل پوری انسایت پر احسان عظیم ہے۔
گھمبیر ترین المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے‘ اس ترقی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مغرب نے پوری دنیا کی قیادت اپنے قبضہ میں کر لی۔ عملی طور پر موجودہ تمام ممالک ‘ ہر لحاظ سے ان کی غلامی میں چلے گئے۔ کسی مسلمان ریاست میں‘ اتنی سکت ہی رہنے نہیں دی گئی کہ وہ پہلے ذہنی طور پر ترقی کر سکے اور پھر مادی ترقی کر کے‘ اپنے شہریوں کی زندگی خوشحالی سے معمور کر دے۔ امریکی صدر کا یہ کہنا کہ اگر امریکا‘ صرف ایک ہفتے کے لیے مسلم ممالک کے شاہی خاندان کی سرپرستی کرنا چھوڑ دے‘ تو ان کی حکومت ختم ہوجائے گی۔
بالکل درست بات ہے! اور یہ مکمل سچ ہے۔ اگر مغرب کے سامنے‘ مسلمانوں کے امیر ترین ممالک کا اتنا برا حال ہے ‘ تو اندازہ فرمائیے‘ کہ ہم یعنی پاکستان کس کھیت کی مولی ہیں۔ مگر پاکستان‘ ایک نیم فکری انقلاب کے بعد قیام پذیر ہوا تھا۔ ہمارے ملک کو حاصل کرنے کے لیے کوئی جہاد یا جنگ نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ یہ مغرب کی بہترین درسگاہوں سے فارغ التحصیل ‘ بلند خیال لوگوں نے انسانی اظہار رائے یعنی الیکشن اور ووٹ کے ذریعے قائم کیا تھا۔ آپ گہرائی سے سوچیں تو یہ مسلمان ممالک کی آزادی حاصل کرنے کا کوئی پسندیدہ چلن نہیں تھا۔ مثال سامنے رکھیے۔ الجیریا پر فرانس کا قبضہ تھا۔
انھیں آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنے فرانسیسی آقاؤں سے مشکل ترین جنگ کرنی پڑی۔ جس میں پندرہ لاکھ الجیرین مسلمان شہری مارے گئے۔ یہ جدوجہد ‘ 1954ء سے لے کر 1962ء تک جاری رہی۔ اور پھر کہیں‘ اس مسلمان ملک پر آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ اس کے بالکل برعکس ‘ برصغیر کی تقسیم بھرپور جمہوری طریقے سے وجود میں آئی۔ جو قتال‘ آزادی کے اعلان کے بعد ہوا‘ وہ دونوں جانب سے ہجرت کے دوران وقوع پذیر ہوا تھا۔ یہ وہ افسوسناک ضرور ہے مگر اس کا آزادی کی جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسلمان‘ ہندوؤں اور سکھوں نے جس بے دردی سے ایک دوسرے کو برباد کیا وہ برصغیر کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔
پاکستان تو خیر حاصل کر لیا گیا‘ مگر وہ سوچ ‘ طرز حکمرانی اور انتقال اقتدار کا مہذب طریقہ ‘ جو جمہوریت کا اصل حسن ہے۔ ہم نے ان تمام عناصر کو اپنے ملک کے نظام میں اپنانے سے انکار کر دیا۔ ہمارے مقتدر طبقے میں اتنی اخلاقی جرأت تو نہیں تھی اور نہ ہے‘ کہ وہ علانیہ طور پر جمہوریت کے کلیہ سے انکار کر دیتے۔ مگر انھوں نے ایک حد درجہ خطرناک حرکت کی۔وہ یہ کہ انھوںنے جمہوریت کے اجزاء کو تبدیل کرنے کی حماقت کر ڈالی۔ایوب خان کی ’’بیسک ڈیموکریسی‘‘ مغرب سے کشید کیے گئے جمہوری کلیہ پر قاتلانہ حملہ تھا۔ جو ان کے جانے کے بعد‘ تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو گئی۔ ہمارے مقتدر طبقے نے اپنے آپ کو فکری طور پر عوام کے ذریعے ‘ اقتدار میں آنے کے فلسفہ سے ہی انکار کر ڈالا۔ یہ بدحالی‘ آج بھی جوں کی توں موجود ہے۔
بلکہ یہ تو روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ مقتدر طبقے کا عام آدمی سے کسی قسم کا کوئی واسطہ نہیں رہا۔ کئی دانشور‘ضلعی سطح کے چناؤ پر زور ڈالتے نظر آتے ہیں جو بالکل درست ہے۔ مگر جس نظام میں ’’ووٹ‘‘ کی بنیاد پر حکومت کرنے کے جمہوری طرز کی بیخ کنی کر دی گئی ہو۔ وہاں بلدیاتی نظام کی کون پرواہ کرے گا؟ تھوڑی دیر کے لیے تصور کرلیجیے کہ ملک ایک انسانی جسم کی طرح ہوتا ہے اور جمہوریت اس کی روح ہوتی ہے۔ تو اگر‘ ملکی نظام سے جمہوریت یعنی روح کو ہی نکال دیا جائے تو باقی کیا بچے گا۔ ایک مردہ جسم‘ جس میں سے شدید بدبو آنے لگتی ہے۔ ہمارے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے اور شاید ہوتا رہے گا۔ کیونکہ یہاں دلیل پر بات کرنے کو سیاسی گناہ بنا دیا گیا ہے۔ مجھے کسی سیاسی جماعت کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ یہ شخصی بنیادوں پر قائم ہیں۔ اصل مسئلہ ہے ہی یہی کہ ملک کے حکومتی نظام میں سے عام آدمی کو نکال دیا گیا ہے۔ یہ ایک کھیل ہے جس کی بنیاد ہی استحصال پر رکھی گئی ہے۔
جس نظریہ کے تحت ہمارا ملک بنایا گیا تھا ہم نے اسے جڑ سے اکھاڑ کر باہر پھینک دیا ہے۔ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو غلامی کو اپنا مقدر سمجھ کر بیٹھ چکے ہیں۔ ہمارے دانشوروں کے اندر بھی اتنا دم نہیں کہ وہ زمینی حقائق کو کھل کر بیان کر پائیں۔ اگر دو چار آوازیں اٹھتی بھی ہیں تو انھیں خاموش کروا دیا جاتا ہے۔موجودہ حالات میں پھر‘ وہی اندوہ ناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جس میں اشرافیہ اور مذہب کے چند خودساختہ ٹھیکے دار‘ اپنے اپنے مفادات کو حاصل اور برقرار رکھنے کے لیے اکٹھے ہو چکے ہیں۔
دولت ‘ اختیارات اور نمود ونمائش کے اس سرکس کو کسی قسم کی عوامی تائید حاصل نہیں ہے اور کیوں ہو؟ ہمارے عوام تو محض پلاسٹک کے شناختی کارڈ ہیں جس کی زندگی کا مقصد‘ حکومت کو بجلی‘ پٹرول اور دیگر سہولتوں کے عوض پیسے دینا ہے۔ یعنی‘ ہم سب‘ خریدار ہیں۔ ہمارے پیسوں کا کیا استعمال ہو رہا ہے ہمارا اس پر کوئی کنٹرول نہیں اور نہ ہی ہم اپنے پیسوں کے جائز استعمال کے متعلق کچھ بھی پوچھ سکتے ہیں۔ اگر کسی نے معمولی سا بھی سوال کر لیا تو جیلوں کے دروازے رات گئے کھول دیے جاتے ہیں اور نظرنہ آنے والے سائے ‘ انسانی روح کو کچل کر رکھ ڈالتے ہیں۔
ملک میں ترقی تو دور کی بات تنزلی کی رفتار کم کرنی بھی ناممکن نظر آتی ہے۔ تمام کے تمام ادارے‘ اپنے دائرہ کار میں کام کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔انجام یہ کہ پاکستان میں ایک بھی ایسا ریاستی ادارہ برقرار نہیں رہا‘ جو کسی بھی طرح کا انصاف کر سکے، نظام کو بہتر کر سکے‘ لوگوں کی حالت کو ابتری سے بچا سکے۔ سیاسی دلدل کی گہرائی اتنی ہے ‘ کہ تمام کا تمام ملک‘ اس کا شکار بن چکا ہے۔ مقتدر طبقہ ‘ اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس پاتال کی زد میں نہیں آئیں گے، وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اشرافیہ بھی ‘ عام لوگوں کے ساتھ ہی ڈوبتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا مقتدر طبقہ‘ ملک کو‘ دنیاوی روش اور جمہوری فکر کے متضاد چلا رہا ہے ۔ کم از کم سات دہائیوں سے تو وہ کامیاب ہیں۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ وہ موجودہ مشکل میں بھی اسی طرز کے ساتھ ملک کو چلا سکیں؟