ادبی تحاریک سے مزاحمت کا خاتمہ کیوں؟

مغربی پولیٹیکل ڈکشن میں سوشلسٹ حکومتوں کو آمرانہ حکومتیں کہا جاتا تھا


وارث رضا December 28, 2025
[email protected]

ہمارے ہاں کئی برسوں سے کتابی میلے، ادبی و ثقافتی فیسٹیول اور کانفرنسز کا نہ ختم ہونے والا چلن چل نکلا ہے، جو بظاہر ایک صحت مند سرگرمی کے طور پر دکھایا جاتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ادب یا ثقافت مزاحمتی شعور کے بغیر سماج میں پنپ سکتی ہے یا نہیں؟

سوال تو یہ بھی ہے کہ مذکورہ کتب میلے، ادبی کانفرنسز یا ثقافتی میلے نئی نسل میں سیاسی و سماجی شعور کو اجاگر کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہو رہے ہیں؟

کیا نسل میں کتب بینی یا اخبار و رسائل پڑھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس تمام کو سمجھنے کے لیے ہمیں ادبی و ثقافتی تحریکوں کے مزاحمتی کردار کو کمزور کرنے والے رجحانات اور کوششوں کا جائزہ لینا ہوگا، تاکہ معاملے کو سمجھا جائے۔

ترقی پذیر ممالک اور خاص طور پر برصغیر کی ادبی و ثقافتی تحریکوں کا مطالعہ سرد جنگ کی حکمت عملیوں، خاص طور پر کانگریس فارکلچرل فریڈم (CCF) کے کردار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

1950 میں قائم ہونے والی کانگریس فارکلچرل فریڈم CCF کو سی آئی اے کی طرف سے خفیہ طور پر مالی امداد فراہم کی گئی تھی، تاکہ سوویت یونین کے اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے اور ترقی پذیر ممالک کی زبانوں کے مقامی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں اور ان کے اندر مزاحمت کے امکان کو روکا جاسکے۔

اس ترقی پسند سوچ کے اکابرین کی اس تحریک کا یہ مقصد تھا کہ محکوم انسانی شعور کے ادبی میلان اور خیالات کو دانشورانہ روشن خیال اور ثقافتی تحریکوں سے جوڑا جائے جو لبرل جمہوری اقدارکی حامی ہوں، لیکن ان میں سرمایہ داری کے فروغ کی کوئی واضح حکمت عملی شامل نہ ہو، جب کہ اس کے مقابل سرمایہ دارانہ ممالک کے گٹھ جوڑ CCF نے ’’آمرانہ‘‘ حکومتوں کے خلاف اظہار رائے کی آزادی، انفرادی حقوق اور بائیں بازو کے نظریات کے مخالف مینیفیسٹوز کی وکالت کو ترجیح دی۔

یاد رہے کہ مغربی پولیٹیکل ڈکشن میں سوشلسٹ حکومتوں کو آمرانہ حکومتیں کہا جاتا تھا مگر امریکا کے حامی فوجی آمروں کو اپنا کہہ کر قبول کر لیا جاتا تھا۔ اس طرح ’’اینٹی کمیونسٹ بایاں بازو‘‘ کا ایک نیا تصور پیدا ہوا، جو نہ صرف بائیں بازو کے رجحانات بلکہ عالمی سطح پر مغربی مفادات کے لیے ایک جدید حکمت عملی بن گئی۔

سرد جنگ کے دوران، CCF نے مختلف اشاعتی منصوبوں، ثقافتی میلوں اور دانشوروں کوگرانٹس، سہولیات، اسکالر شپس کے ذریعے اپنے مقاصد کو فروغ دیا، جو اب دوبارہ سے ترقی پذیر ممالک میں شد و مد کے ساتھ جاری و ساری ہے۔

تحریکوں کا مطالعہ سرد جنگ کی حکمت عملیوں، خاص طور پر کانگریس فارکلچرل فریڈم (CCF) کے کردار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ CCF کے بارے میں اب کئی تحقیقی مقالے اور چند کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔

1950 میں قائم ہونے والی کانگریس فار کلچرل فریڈم CCF کو سی آئی اے کی طرف سے خفیہ طور پر مالی امداد فراہم کی گئی تھی تاکہ سوویت یونین کے اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔21 ویں صدی میں، امریکا کی فنڈنگ سے چلنے والی سول سوسائٹی تنظیموں، ماحولیاتی تحریکوں اور ثقافتی سرگرمیوں جیسے ادبی میلوں (literary festivals) نے سرد جنگ کے دور کی نوعیت کی حکمت عملی کو اپنایا ہے۔

کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں ہونے والے ادبی میلوں میں یہ تقریبات ظاہری طور پر مکالمہ اور دانشورانہ تبادلے کے پلیٹ فارم ہیں لیکن یہ ایک قسم کی ثقافتی نوآبادیاتی (cultural colonialism) کے وہ حربے ہیں جو مغربی ایجنڈے کو فروغ دے کر دراصل سرمایہ دارانہ مفادات کا فروغ چاہتے ہیں۔

سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد اب کیونکہ پاکستان کا دانشور طبقہ ایک ایسا ریوڑ بن چکا ہے جسے کوئی بھی ہنکا کر کہیں بھی لے جائے کیونکہ بائیں بازو کی تحریک کمزور اور کسی حد تک عنقا ہوچکی ہے۔

اس لیے مغربی ثقافتی نوآبادیاتی ایجنڈا بلا چون و چرا پاکستان میں میلوں، فیسٹیول یا کانفرنسز کی شکل میں فروغ پا رہا ہے، جس سے مقامی زبان و ادب کے نہ صرف رجحان میں کمزوری پیدا ہو رہی ہے بلکہ ان میلوں، فیسٹیول یا کانفرنسز میں عام فرد یا ادبی قاری لا تعلق ہو چکا ہے جس سے ادب و ثقافت میں نہ تہذیب پیدا ہو رہی ہے اور نہ ہی شائستگی سماج میں اپنی حیثیت منوا پا رہی ہے۔

یہ میلے اور فیسٹیول بنیادی طور سے مغربی اقدار، انفرادیت، لبرل ازم اور صارفیت (consumerism) کو ترجیح دے کر ایک ایسا اُمرائی یا اعلیٰ طبقہ پیدا کیا جاتا ہے جس کا ادبی و ثقافتی اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ امرائی طبقہ ان میلوں، فیسٹیول اور کانفرنسز سے اپنے طبقاتی تعلقات کی بحالی چاہتا ہے یا کسی طبقاتی مفاد کے تحت ایسے میلے ٹھیلے کا حصہ بن جاتا ہے، جو نہایت فکر انگیز عمل ہے۔

میلوں، فیسٹیول یا کانفرنسز کا یہ سماجی قدروں کو بانجھ کرنے والا یہ خطرناک رجحان در حقیقت مقامی ثقافتوں اور اقدار سے متصادم ہوتے ہیں، لہٰذا ان میں ایسے فنکار، مصنفین اور دانشور حصہ لیتے ہیں جو اکثر اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھ بند کر کے شمولیت کے پیچھے وسیع جغرافیائی اور سیاسی مقاصد کیا ہیں۔

تاہم، کچھ افراد اس حقیقت سے آگاہ ہو کر جان بوجھ کر مغربی ایجنڈے کو فروغ دیتے ہیں جو مستقبل میں عالمی نیو لبرل مفادات کی حمایت کرتا ہے۔پاکستان میں غیر ملکی فنڈز سے چلنے والے ادبی میلوں کو ایک نرم طاقت (soft power) کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جو دراصل مغربی ثقافتی اور دانشورانہ معیارات کو فروغ دے کر مقامی ادب و تہذیب کو کمزور کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ میلے عموماً ریاست کی استحصالی زبان یا انگریزی زبان کے مصنفین اور لبرل تھیمز کو ترجیح دیتے ہیں جو مغربی نظریات سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ جو کہ نتیجے کے طور پر مقامی ثقافتوں اور ادبی ورثے کے لیے ایک خطرہ بن رہا ہوتا ہے۔

اس طبقہ کو ’’ کمپراڈور انٹلیکچولز‘‘ (comprador intellectuals) کہا جاسکتا ہے جو مقامی شناختوں اور ادبی جدوجہد کو مسلسل نظر انداز کرنے کا کام کرتے ہیں۔

امریکا نے تاریخی طور پر دانشورانہ اور ثقافتی لبرل تحریکوں کو اپنے اسٹرٹیجک مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ CCF کی سرگرمیوں سے لے کر موجودہ ادبی میلوں (contemporary literary festivals) تک یہ سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔

موجودہ دور میں ایک اور نئی حکمت عملی یہ نظر آتی ہے کہ حکومتی مداخلت کے علاوہ نجی افراد یا ادارے بھی اس قسم کے بے مصرف میلوں، فیسٹیول اور کانفرنسز میں فنڈنگ کر رہے ہیں۔ جیسے جارج سوروس (George Soros)، ایلون مسک (Elon Musk)، بل گیٹس (Bill Gates) اور کئی مالدار افراد یا نجی اداروں کی طرف سے دنیا کے نظریات کو دوبارہ تشکیل دینے (worldview reshaping) میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، جس سے ہمیں بحیثیت ایک ترقی پسند ادب و تہذیب رکھنے والے کے طور پر اور مختلف زبانوں کے ادب کے فروغ کی کوششوں کا ساتھاری بننا چاہیے۔

یاد رکھا جائے کہ پاکستان میں میلوں، فیسٹیول اور کانفرنسز کی شکل میں یہ اقدامات ثقافتی نوآبادیات (cultural colonization) کے جاری منصوبے کا ایک وہ حصہ ہیں جو دانشورانہ اور ثقافتی منظر ناموں کو مغربی اقدار (Western norms) کے مطابق بہت چالاکی کے ساتھ ڈھالتے ہیں جب کہ مقامی شناختوں اور ادبی جدوجہد کو کم سے کم کر کے اپنے سرمایہ دارانہ مفاد اہم رکھتے ہیں۔

سعدیہ طور کے مطابق یہ پروگرامز بہت منظم طور پر سامراج مخالف نظریات (anti۔ imperialist ideologies) کو نہایت آہستگی سے منہدم کرتے ہیں اور یہ کہ ترقی پذیر دنیا کے دانشورانہ اور ثقافتی تانے بانے (fabric) کو تشکیل دینے میں غیر ملکی ایجنڈوں کے خفیہ مگر وسیع اثر و رسوخ کو فروغ دیتے ہیں جن کو سمجھنے اور ان سرمایہ دارانہ چالبازیوں کے خلاف سماجی اور فکری مزاحمت کی ضرورت ہے۔

مقبول خبریں