اس سے قبل کہ ہم اندرون سندھ کی سیاحت کا احوال بیان کریں، بہتر یہ ہے کہ ایک خوبصورت اور یادگار تقریب کا احوال بیان کریں، چونکہ یہ تقریب ہی سفر کی اس وقت موجب بنی جب بیچ لگژری ہوٹل کے جیسمین ہال میں سیاحت کے فروغ کے لیے سندھ کی اہم شخصیات سید ذوالفقار علی شاہ اور سید ناصر حسین شاہ نے بحیثیت مہمانان خصوصی شرکت کی اور حاضرین و قلم کاروں کی توجہ ٹور ازم کی طرف دلائی۔
تقریب بے حدکامیاب تھی، ہمیشہ کی طرح محمود شام نے بہترین انتظام کیا تھا اور ہر طبقہ فکرکے لوگوں کو مدعوکیا تھا، پاکستان میں فروغ سیاحت کے لیے خصوصی تقریب میں ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن، ٹورآپریٹرز وی لاگرز میں اعزازات تقسیم کیے گئے، تعاون سندھ کے شعبہ سیاحت کا تھا۔
ہم نے اسی روز عزم کر لیا تھا کہ ہم سیاحتی سفر ضرورکریں گے اور اپنے تاثرات بھی ضرور بیان کریں گے تاکہ نئی نسل اور ان لوگوں کے لیے آگاہی مہیا کی جائے جو سندھ میں رہتے ہوئے بھی سندھ کی تاریخ اور جغرافیہ سے لاعلم ہیں، اگر علم ہے بھی تو وسائل کا فقدان۔
اس موقع پر سندھ حکومت سے ایک درخواست ہے کہ وہ ہر ماہ اسکول وکالج سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک طالب علموں کے اسفارکا اہتمام کرے تاکہ ہمارے نوجوان تاریخ کے اوراق پر درج حکمرانوں کے کارنامے اور وہاں بسنے والوں کے علم و ادب اور ہنر سے واقف ہوں، ان میں بھی ایک نیا ولولہ اور عزم پیدا ہو کہ کامیابی کے سورج کو کس طرح تسخیرکیا جاتا ہے ایک کامیاب قوم کس طرح سرخرو ہوتی ہے۔
اس وقت ہم سب مسافروں کے چہرے گونہ گو خوشی سے دمک رہے تھے ہم تو تقریباً دو عشروں یعنی تقریباً 25-20 سال بعد سفر کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔
ماہ دسمبر کی 17 تاریخ تھی، آسمان کو بادلوں نے ڈھانپ لیا تھا ملگجا سا اجالا ہر سمت پھیلا ہوا تھا۔ دھوپ کی تمازت سے نجات مل گئی تھی۔ اس ماہ میں بزرگ اور نوجوان اپنی یادوں کے چراغ روشن کرتے ہیں۔ موسم گنگنا رہا تھا اور سرد ہوائیں سرگوشیاں کر رہی تھیں، ان سرگوشیوں کو دل والے ہی سن سکتے ہیں۔
آپس کی خوش گپیوں نے وقت کو مختصرکردیا تھا اور دیکھتے ہی د یکھتے ہم سندھ کے ایک قدیم شہر بھنبھور پہنچ چکے تھے۔
بھنبھور کا تعلق ابتدا میں سیتھائی اور پارتھیائی دور سے بتایا جاتا ہے بعد میں مسلمانوں کے زیر تسلط رہا، یہ عرصہ آٹھویں صدی سے تیرہویں صدی تک کا ہے۔
شہر بھنبھور میں مسجد کے بھی آثار نظر آئے، تحقیق کے بعد اس بات کی آگاہی ہوئی کہ یہ جنوبی ایشیا کی پہلی مسجد ہے، آثار قدیمہ کے مطابق اس دور میں بھنبھور کا شمار خوشحال ریاستوں میں ہوتا تھا۔
بھنبھور میں ہماری ملاقات سلیم عباسی سے ہوئی، انھوں نے بھنبھورکی تہذیب و ثقافت کے بارے میں بتایا بلکہ وہ عجائب گھر بھی دکھایا جہاں برتن ہاتھی دانت کی نقاشی اور ہاتھی دانت سے بنے ہوئے زیورات جوکہ ٹکڑوں کی شکل میں دستیاب ہوئے ہیں، ان ہاتھی دانتوں کی حیثیت سونے چاندی جیسی تھی۔
وادی سندھ سے لے کر روم تک اسے اشیا تعیشات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھنبھور انتہائی خوشحال ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تجارت کا مرکز بھی تھا۔
عجائب گھر میں رکھی چیزیں بھنبھور شہرکے حکمرانوں اور کاریگروں اور اپنے کام میں ماہرین کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت تھا، سوچتی ہوں اتنی صدیاں گزرنے کے باوجود ہم اور ہمارا معاشرہ زوال کی پگڈنڈیوں کو چھو رہے ہیں،کہاں ترقی اورکہاں تنزلی؟
بھنبھورکی بندرگاہ ایک قرون وسطیٰ کے ساحلی شہرکی اہم بندرگاہ تھی اور یہ ایک صنعتی اور تجارتی مرکز بھی تھا، اسے دیبل کی بندرگاہ بھی کہا جاتا ہے۔
بھنبھورکو دیبل کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔2004 میں محکمہ آثار قدیمہ و عجائب گھر حکومت پاکستان نے اس مقام کو یونیسکو عالمی ثقافت ورثہ کی فہرست میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی۔
ہم نے دور دور تک پھیلے ہوئے سبزے اور تناور درختوں کی چھاؤں میں کچھ وقت گزارا، جھولا بھی جھول کر بچپن کو آواز دی اور جب بچپن و لڑکپن رخصت ہوا تو دوسرے دور نے ہمیں اپنے حصار میں لے لیا، اب ہمارے ہونٹ بھی گنگنانے لگے:
’’جھولا کون جھلائے گا بالم‘‘
ہمارا دوسرا پڑاؤ مکلی کا قبرستان تھا، یہاں ہمارا استقبال کرنے اور قبرستان کی زیارت کرانے کے لیے سید غیور تھے جنھیں سبق کی طرح مکلی کے حوالے سے بادشاہوں، گورنروں اور ان کے حالات زندگی کے بارے میں معلومات ازبر تھی۔
یہ قبرستان 10 یا 12 کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے، دنیا کے وسیع قبرستانوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ چودھویں صدی سے اٹھارویں صدی عیسوی تک کے بادشاہ، وزرا، منصفین اور جنگجو اپنی قبروں میں استراحت فرما ہیں، قیامت تک کے لیے گہری نیند سو رہے ہیں۔
اس وقت نہ جانے کیوں ہمیں میرکا شعر یاد آگیا ہے۔
سرہانے میرکے آہستہ بولو
اب ٹک روتے روتے سوگیا ہے
لہٰذا ہم بھی زمین پر ہولے ہولے قدموں سے چلے کہ احترام لازم تھا۔
کئی ادوار کی مقتدر ہستیاں اور اکابرین موت کے مراحل سے گزر چکے ہیں، پہلا دور سمہ خان اور دوسرا ارغون خاندان کا، تیسرا ترخان خاندان اور چوتھا مغل کے صوبہ داروں کا، یہ ایشیا کا سب سے بڑا اور مسلم دنیا کا دوسرا بڑا قبرستان شمار کیا جاتا ہے۔
1981 میں اقوام متحدہ کے ادارے برائے سائنس و ثقافت نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔مکلی کا وسیع و عریض قبرستان دیکھنے کے لیے سندھ حکومت کی طرف سے گاڑیاں فراہم کی گئی تھیں۔ اچھا ہی ہوا ایک تو وقت بچا، دوسرا بے ادبی کا خوف بھی کم ہوا، ورنہ تو شاید اہل بصیرت اس آواز کو ضرور سنتے کہ:
دیکھو مجھے جو دیدہ نگاہ ہو
یا پھر یہ درد انگیز صدا
(جاری ہے)۔