طلاق بظاہر چار حرفی لفظ ہے لیکن یہ اپنے اندر منفی بعض حالات میں تباہ کن اثرات رکھتا ہے۔ طلاق میں جہاں میاں بیوی کی ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی زندگی متاثر ہوتی ہے، وہاں اس کی زد میں آنے والے خاندان بھی تکلیف اور اذیت سے گزرتے ہیں، بالخصوص بچے جس کرب اور اذیت سے دوچار ہوتے ہیں وہ ناقابل بیان ہے وہ اپنے ناکردہ جرم کی سزا ساری زندگی بھگتتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ماضی میں یہ عمل نہ صرف ناپسندیدہ بلکہ گالی تصورکیا جاتا تھا، بدقسمتی سے موجودہ دور میں اس کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو افسوس ناک بات ہے یہ ایک نہایت توجہ طلب مسئلہ ہے، ہمیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
آئیے! اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ طلاقیں کیوں ہوتی ہیں؟ اس کی شرح میں اضافے کے اسباب کیا ہیں اور اس کا تدارک کیسے کریں۔ ہماری مشرقی روایات میں مرد کی حکمرانی کا تصور عام ہے، مغربی تہذیب کے اثرات کے باعث مساوات زن کا تصور عام ہوا، لہٰذا ہمارے معاشرے میں میاں بیوی کی ایک دوسرے پر حکمرانی اور بالادستی کی جنگ بعض اوقات تنازعات کی صورت اختیار کر لیتی ہے، جس کا نتیجہ آخرکار طلاق کی صورت میں آتا ہے۔
شادی کی ناکامی کے اہم محرکات میں ایک اہم محرک مشترکہ خاندانی نظام ہے جو میاں بیوی کے مابین لڑائی جھگڑے کی بنیاد بنتا ہے۔ ساس اور نندوں کے روز روز کے باہمی جھگڑے حالات میں اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ وہ اسے طلاق کی آخری حد تک ہی پہنچا کر دم لیتے ہیں۔
جہاں شوہر کے گھر والے میاں اور بیوی کے معاملات میں بے جا مداخلت کرکے مسائل پیدا کرتے ہیں وہاں بیوی کے گھر والے بھی ہم کسی سے کم نہیں کا نعرہ لگا کر میاں اور بیوی کے معاملات میں بے جا مداخلت اور بیٹی کی پشت پناہی کر کے مسائل پیدا کرتے ہیں جس کا نتیجہ آخرکار طلاق کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔
طلاق کے پیچھے کارفرما عوامل میں گھریلو تشدد ایک ایسا عنصر ہے جو طلاق کی شرح میں اضافے کا باعث رہا ہے۔ وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں مرد اپنی جسمانی ساخت کی بنیاد پر صنف نازک پر تشدد کرتا ہے تو عورت ردعمل میں زبان درازی کرتی ہے نتیجے میں مرد مزید مشتعل ہو جاتا ہے اور عورت کو زبان دراز قرار دے کر اسے طلاق دے دیتا ہے اس طرح یہ دائمی رشتہ چند لمحوں میں ختم ہو جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں عورتیں معاشی طور پر مردوں پر انحصارکرتی ہیں، سماج میں مرد کے بغیر عورت کا زندگی گزارنا محال ہوتا ہے، یہ صورت حال عورت کو مجبور کرتی ہے کہ وہ نامناسب حالات میں بھی شادی کے بندھن سے بندھی رہے۔
موجودہ دور میں سماجی اقدار بدل گئی ہیں، عورت معاشی عمل میں حصہ دار بن جاتی ہے جب اسے ازدواجی زندگی میں مشکلات پیش آتی ہیں تو وہ خود کو آسانی سے شادی کے بندھن سے آزاد کر لیتی ہے جس کے باعث طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔
موجودہ دور میں ہر روز بڑھتی ہوئی مہنگائی کی بدولت روزمرہ کی ضروریات کا پورا ہونا محال ہے۔ جب عورت مرد سے گھر کی ضروریات کی تکمیل کے لیے تقاضا کرتی ہے تو مرد کا اسے پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا، یہ صورت حال دونوں میں محاذ آرائی بعض اوقات گھریلو جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتی ہے، اگر اس کے ساتھ دیگر گھریلو مسائل بھی شامل ہو جائیں تو بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے جو علیحدگی کا باعث بن جاتی ہے۔
انسان کی ذہنی سوچ، مزاج اور دلچسپیاں انسانی عمر کے تابع ہوتی ہیں عمومی طور پر یکساں عمر رکھنے والے جوڑے ایک دوسرے کے احساسات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور ذمے داریوں کو بہتر انداز میں نبھا سکتے ہیں لیکن جن گھرانوں میں شادی کے وقت عمر کے واضح فرق کو نظر انداز کیا جاتا ہے، وہاں ذہنی ہم آہنگی کا فقدان ایک قدرتی امر ہے، اس کے نتیجے میں بعض شادیاں ناکامی سے دوچار ہو جاتی ہیں۔
کم عمری میں جو شادیاں کی جاتی ہیں وہ ابتدائی مراحل میں بھی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں، کیونکہ یہ کسی بھی صورت میں ذمے داریاں سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتیں، اس لیے شادی مناسب عمر میں ہی کی جانی چاہیے۔
بعض مرد حضرات جنسی بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں وہ شادی کو سماجی ذمے داری سمجھنے کے بجائے اس فریضے کو جنسی (سیکس) کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، ایسے افراد جب شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے تھوڑے عرصے بعد ہی اپنے جیون ساتھی سے جلد اکتا جاتے ہیں اور نئے شکار کی تلاش میں رہتے ہیں، ان کی یہ منفی سوچ فریقین کے مابین علیحدگی کا باعث بن جاتی ہے۔
وٹہ سٹہ یا بدلے کی شادیوں کا رواج بھی طلاق کی شرح میں اضافے کا باعث بنتا ہے، یہ شادیاں زیادہ مستحکم نہیں ہوتیں، مسائل جنم لینے کی صورت میں دونوں خاندان طلاق کے خوف یا طلاق کے دباؤ کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔
طلاق کسی بھی جانب سے دی جائے وہ دونوں خاندانوں کو تباہ کر دیتی ہے، زندگی میں زمین و جائیداد کی وراثت کے حوالے سے انسان کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے بعض خاندان اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ زمین اور جائیداد غیر خاندان میں منتقل نہ ہو وہ اس مفاد پرست سوچ کے تحت اپنے بچوں کی شادیاں خاندان میں ہی طے کرتے ہیں۔
ان شادیوں میں بچوں کی پسند اور ناپسند اور ان کے مابین عمروں کے فرق، ذہنی ہم آہنگی کے اہم عنصر کو نظراندازکردیا جاتا ہے، ظاہر ہے ایسی شادیوں کا تادیر چلنا مشکل ہوتا ہے جو شادیوں میں ناکامی کا سبب بنتا ہے۔
یہی مسائل برادری میں شادیاں کرنے کے رجحان کے تحت بھی پیدا ہوتے ہیں یہ جبری شادیاں بھی ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں۔شادی میں ناکامی اور طلاق کی شرح میں اضافے کے دیگر عوامل میں جسمانی امراض بالخصوص نامردی، عورت کا بانجھ پن، بیٹوں کی پیدائش کا نہ ہونا، مرد یا عورت کا نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونا، مرد یا عورت کا اپنے ذاتی مشاغل میں مصروف عمل ہونا بالخصوص موجودہ دور میں میڈیا کا غلط استعمال بالخصوص اس کے ذریعے غیر رسمی دوستیوں کا بڑھتا ہوا رجحان ایسے عوامل ہیں جن سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا تدارک کیسے کریں؟ اس کا بہتر جواب تو سماجی علوم کے ماہر ہی دے سکتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں انسان کی تصوراتی زندگی اور حقیقی زندگی میں فرق ہوتا ہے، اختلاف رائے اور تضادات معاشرے کا لازمی جز ہیں، اس سے فرار ممکن نہیں، اس لیے شادی کے وقت انسان کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں اور شادی کے بعد بند کر لینی چاہئیں، یعنی اسے آخر وقت تک نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے، طلاق صرف اسی صورت میں ہی دی جانی چاہیے یا لی جانی چاہیے جب وہ ناگزیر ہو۔