کاہے کی مبارک باد؟

پی آئی اے کے ساتھ زوال کا حادثہ تین چار دہائیوں سے پرورش پا رہا تھا


خالد محمود رسول December 28, 2025

’’دو کلو وزن فالتو ہے، اس کے چارجز ادا کرنے ہوں گے۔‘‘

ایئر لائن اسٹاف نے کہا۔ ’’ہم تین لوگ اکٹھے چیک ان کر رہے ہیں، باقی دو کے وزن میں کافی گنجائش ہے۔‘‘

ایئر لائن اسٹاف نے وضاحت کی ’’جی نہیں، ہمارا۔اصول انفرادی وزن لمٹ ہے۔‘‘ ہم نے باکس واپس اٹھایا، وزن برابر کرنے کے لیے کچھ چیزوں کو ہمراہی کے باکس میں منتقل کیا اور سامان کلیئر کرایا۔

ترکی کے ایک ایئرپورٹ پر اندرون ملک کی فلائٹ کے اس واقعے سے ہمیں اپنے ملک کی موجیں یاد آئیں، جب پی آئی اے کاؤنٹر اسٹاف چار کلو زائد وزن پر مسافر سے ڈیمانڈ کرتے کہ فالتو وزن کا کرایہ دیں یا وزن کم کریں۔

اکثر مسافروں کو اس بات پر ایئر لائن عملے کو شرمندہ کرتے دیکھا کہ چار کلو ہی کی تو بات ہے! اس کے علاوہ درجنوں بار دیکھا کہ باقاعدہ منظم طریقے سے فالتو وزن لے جانے والے انٹرنیشنل مسافر کسی سفارش کا بندوبست کرتے کہ چیک ان کے وقت فالتو وزن بخیر و خوبی بغیر کسی اضافی چارجز کے کلیئر ہو جائے۔

یہ دو رخ کامیاب کمرشل ائر لائن اور پی ائی اے کے زوال کے درمیان فرق واضح کرتے ہیں۔

یہ تو ٹھہرے ہم ایسے عام لوگ لیکن خاص اور اشرافیہ کے مزے ہی کچھ اور دیکھے ،فری ٹکٹس، مختص وی آئی پی سیٹیں، فالتو وزن پر کوئی پوچھ گچھ نہیں ، حتیٰ کہ اعلیٰ ترین عہدے دار اپنے یا اپنے کسی دوست کے لیے تاخیر کی صورت میں پوری فلائٹ روکنے کے استحقاق پر فخر کرتے دیکھے۔

پی آئی اے کے 70 سالہ قیام میں گزشتہ 30 /40 سالوں کے دوران سیاسی مداخلت ، انتظامی بد انتظامی، مالیاتی بد انتظامی اور ادارے کو کاروباری بنیادوں پر چلانے کے بجائے مال غنیمت سمجھ کر ہر سطح پر نوچنے کی روش نے پی ائی اے کو موجودہ مقام پر پہنچایا۔

رواں ہفتے خدا خدا کرکے کئی سالوں کی کوششوں کے بعد پی آئی اے کی نجکاری کا پہلا سنگ میل عبور ہو گیا۔

ڈیل کے مطابق خریدار کنسورشیم نے پی آئی اے کے 75 فیصد شیئرز 135 ارب روپے میں خریدے ہیں۔ اس رقم میں سے حکومت کو فقط 10 ارب روپے نقد وصول ہوں گے جب کہ خریدار کنسورشیم بقیہ 125 ارب روپے کی ائر لائن میں براہ راست سرمایہ کاری کرے گا۔

علاوہ ازیں اگلے پانچ سالوں میں کنسورشیم 80 ارب روپے کی سرمایہ کاری بھی کرنے کا پابند ہوگا۔

پی آئی اے کے ساتھ زوال کا حادثہ تین چار دہائیوں سے پرورش پا رہا تھا۔ آٹھ دس سال پہلے پی آئی اے کے آڈیٹرز نے اپنی ابزرویشن دے دی تھی کہ یہ ادارہ Going Concern نہیں ہے یعنی یہ ادارہ چلتے رہنے کی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔ ایک لمحے کے لیے فرض کریں کہ آپ اس ائیر لائن کے مالک ہیں جس کے نمایاں پہلو کچھ یوں ہیں:

لگ بھگ 34 میں سے صرف 18/19 جہاز آپریشنل ہیں۔جہازوں کے اوسط عمر 18 سال سے زائد ہے۔ عمر رسیدہ جہازوں کی ایندھن کھپت اور مینٹیننس انڈسٹری سے کہیں زیادہ یے۔

انڈسٹری کے عالمی معیار کی نسبت ملازمین کی فی جہاز تعداد تین/ چار گنا ہے۔گزشتہ دس سال سے بھی زائد عرصے سے نیٹ ورتھ یعنی صافی سرمایہ سیکڑوں ارب روپے نیگیٹو ہے۔

سالہاسال سے جمع نقصان 500 ارب سے زائد اور قرضوں / ادائیگیوں کا کل حجم 785 ارب روپے ہے۔ائیر لائن کے پاس لینڈنگ رائٹس کے باوجود یورپ میں پابندی ہے وغیرہ وغیرہ۔

آپ اس ائیر لائن کے کاروبار کو کتنی دیر مزید کھینچ لیں گے؟… شاید ایک دن بھی نہیں۔پی آئی اے جیسے قومی ادارے کے ساتھ بھی یہی کاروباری انداز اپنانے کی ضرورت تھی لیکن گزشتہ 20 سالوں کے دوران میں مختلف سیاسی حکومتوں نے نوشتہ دیوار پہ لکھے سے آنکھیں چرائیں۔

بالاخر موجودہ حکومت کو وہی کچھ کرنا پڑا ہے جو بہت سے ملکوں نے ایسی صورتوں میں مجبوراً کیا۔ 2024 میں حکومت نے پی آئی اے کے مالیاتی نظم کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔

پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی میں گزشتہ سال ہی آئی اے کے 650 ارب روپے کے قرضوں کا بوجھ منتقل کر دیا گیا۔ جب کہ پی آئی اے کو ایئر کرافٹ سے متعلق اثاثوں اور قرضوں کی بنیاد پر علیحدہ ٹریٹ کیا گیا۔

اس فنانشل انجینئرنگ سے پی آئی اے کی گزشتہ سال 2024 کی فائننشل اسٹیٹمنٹ کلین ہو گئی۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ 650 ارب روپے کے قرض دریا برد یا غتر بود ہو گئے۔

جی نہیں، بلکہ خاموشی سے یہ قرضے حکومت نے بالواسطہ طور پر اپنے ذمے لے لیے یعنی ماضی کی بد انتظامیوں اور نااہلیوں کا یہ پہاڑ اب عوام کے ٹیکسوں سے سر کیا جائے گا۔

خریدار کنسورشیم نے ایک کلین کاروبار خریدا ہے جس کے پاس نام، پرانی ساکھ اور مارکیٹ کا تجربہ ہے، لینڈنگ رائٹس ہیں، کارگو، کچن سمیت دیگر منافع بخش کاروبار ہیں اور سیاسی جھنجھٹ سے آزاد ادارہ جسے وہ کاروباری انداز میں چلا سکتے ہیں۔

فوجی فرٹیلائزرز جیسے ادارے کی کنسورشیم میں شرکت سے خریدار گروپ کو ایک تگڑا ساجھے دار بھی مل گیا ہے جو ائرلائن جیسے پیچیدہ کاروبار چلانے کے دوران ’’آہ و بکا‘‘ کے ممکنہ مقامات پر معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

ان حالیہ سالوں کے دوران جب پی آئی اے بد انتظامی، اپنوں پرایوں کی کرپشن ، کاروباری لڑکھڑاہٹ ، عدم سرمایہ کاری اور سیاسی مداخلت کے ہاتھوں زمین بوس ہو رہی تھی دنیا میں اچھی ائیر لائنز آسمان چھو رہی تھیں۔

اسی دوران سیکیورٹی حالات نے نہلے پر دہلا مارا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے چند ایشیائی ائیر لائینز کے سوا بڑی انٹرنیشنل ائیر لائنز نے پاکستان سے آپریشنز معطل کر دیے۔

گزشتہ کئی سالوں سے اب یہ عالم ہے کہ تین چار مڈل ایسٹرن اور ایک دو انٹرنیشنل ائیرلائنز پاکستان سے انٹرنیشنل ٹریولنگ کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

من مرضی کے کرائے ہیں جب کہ مسافروں کی بہتات کا یہ عالم ہے کہ سیٹ کے لیے ایڈوانس تردد کرنا پڑتا ہے۔ دہائیوں سے جو بزنس پی آئی اے نے بنایا وہ بنا سنورا اب دوسروں کے کام آ رہا ہے۔

اس کے باوجود ہم خودانکاری پر بضد اور خوش گمانی پر مصر ہیں۔ اپنی کوتاہیوں پر کوئی افسوس نہ بد انتظامیوں پر کوئی پوچھ گچھ، ایک بے مثال قومی سرمایہ اہل اقتدار نے دھڑلے سے گنوایا جیسے کوئی بے رحمانہ انداز میں اپنے لیے ایک بوٹی کی خاطر پورا بکرا ذبح کر دے۔

اب یہ عالم ہے کہ مستقبل کے خسارے سے جاں بخشی اور 650 ارب روپے کی ذمے داری اپنے سر لے کر حکومت ستائش کی متمنی ہے۔ کاہے کی مبارک! کس کس کو دیں مبارک؟ کہ بہت سوں کی کئی دہائیوں کی اجتماعی ’’کوششوں‘‘ نے ادارے کو آسمان سے زمین پر دے مارا ہے!

مقبول خبریں