صبر آخر کب تک

لوگ تھک گئے ہیں سوال کر کے اور انھیں اندازہ ہے کہ ان کو اپنے کسی سوال کا جواب نہیں ملے گا


زاہدہ حنا December 28, 2025

پاکستانی عوام اس وقت جن حالات سے گزر رہے ہیں، وہ انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ ایک خاموشی ہے! ایک ایسی خاموشی جو ہار ماننے کی نہیں بلکہ مسلسل آزمائش، مسلسل نظرانداز ہونے اور بار بار دھوکا کھانے کے بعد پیدا ہونے والی تھکن کی علامت ہے۔کوئی امید نظر نہیں آتی، ہر طرف مایوسی کی فضا ہے۔

لوگ تھک گئے ہیں سوال کر کے اور انھیں اندازہ ہے کہ ان کو اپنے کسی سوال کا جواب نہیں ملے گا۔ انھیں معلوم ہے کہ ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔

مہینے کے آغاز میں یہ فکر ہوتی ہے کہ محدود تنخواہ میں اخراجات کس طرح پورے کیے جائیں۔ بجلی کا بل، گیس کا بل، پانی کا بل، بچوں کی فیس،دوا، کرایہ اور دیگر ضروریات زندگی کو باعزت طریقے سے کیسے ممکن بنایا جائے۔

بہت سی چیزیں اس لیے خاموشی سے فہرست سے کاٹ دی جاتی ہیں۔ ایک عام شہری بڑی مشکل سے زندگی بسر کر رہا ہے۔

ریاست اور شہری کے درمیان جو رشتہ کبھی وعدوں، دعوؤں اور اجتماعی خوابوں پر قائم تھا، اب مفاہمت اور مجبوری پر چل رہا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ بہت کچھ بدلنے والا نہیں، اس لیے وہ صرف یہ دعا کرتے ہیں کہ حالات مزید خراب نہ ہوں۔

یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ قوم اب اس مقام پر آچکی ہے جہاں بہتری کی امید بھی ایک ایسا خواب یا خواہش لگتی ہے جو پوری نہیں ہوسکتی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انکارکی قوت بھی ختم ہوجاتی ہے۔

جب ناانصافی روزمرہ کا معمول بن جائے تو انسان صرف مظلوم نہیں رہتا، وہ ایک خاموش شراکت دار بن جاتا ہے، ایسا شراکت دار جو جانتا ہے کہ یہ غلط ہے مگر اس کے پاس انکارکی طاقت نہیں بچی۔

محنت کش طبقہ جسے کبھی تبدیلی کی بنیاد سمجھا جاتا تھا، آج محض بقا کی جنگ میں الجھا ہوا ہے۔ فیکٹریوں، ورکشاپوں، دکانوں، دفاتر اورگھروں میں کام کرنے والے لوگ اب حقوق کی بات کم اور نوکری بچانے کی بات زیادہ کرتے ہیں۔

یونینیں کمزور ہو چکی ہیں، اجتماعی آواز بکھر چکی ہے اور مزدور تنہا ہوگیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے اسے صرف محنت کرنے والا انسان نہیں رہنے دیا بلکہ ہر وقت قابلِ استعمال اورکسی بھی لمحے قابلِ مسترد شے بنا دیا ہے۔ ریاست نے اس پورے عمل کو روکنے کے بجائے اکثر اوقات اس کی سہولت کاری کی ہے۔

درمیانہ طبقہ جو کسی زمانے میں سماجی توازن کی علامت سمجھا جاتا تھا، آج سب سے زیادہ خوفزدہ ہے۔ اس کے پاس کھونے کو بہت کچھ ہے مگر بچانے کی قوت نہیں۔ وہ ہر دن نیچے گرنے کے اندیشے میں جیتا ہے اور یہی اندیشہ اسے خاموش رکھتا ہے۔

یہ طبقہ جانتا ہے کہ احتجاج کی قیمت فوری اور بھاری ہوتی ہے جب کہ خاموشی کی قیمت آہستہ آہستہ قسطوں میں ادا کی جاتی ہے۔

یہی سوچ اسے نظام کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ یہی طبقہ اس پورے منظرنامے کی سب سے بڑی اخلاقی شکست ہے، کیونکہ یہ ظلم کو پہچانتا بھی ہے اور اس سے نظریں بھی چراتا ہے۔

خواتین کے لیے یہ تھکن دہری بلکہ تہری ہے۔ معاشی دباؤ، سماجی جبر اور ریاستی بے حسی کے درمیان وہ ایک نازک توازن قائم رکھنے کی کوشش میں ہیں۔

ایک طرف زندہ رہنے کی جدوجہد دوسری طرف عزت، آزادی اور خود داری کا سوال۔ عورتیں اب صرف مظلوم نہیں رہیں، وہ اس اجتماعی تھکن کی سب سے زیادہ شکار ہیں۔

وہ گھروں میں، دفاتر میں، فیکٹریوں میں اور اپنے اندر بہت سے دکھ لیے جی رہی ہیں۔ ان کے کندھوں پر صرف خاندان نہیں پورا سماج ٹکا ہوا ہے مگر ان کی آواز اب بھی سب سے کم سنی جاتی ہے۔

تعلیم جو ہمیں آگے بڑھنے اور کچھ کرگزرنے کا حوصلہ دیتی تھی، اب ایک مہنگا کاروبار بن چکی ہے۔ نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لیے در بدر پھر رہے ہیں۔ جن کے پاس ہنر ہے وہ ملک چھوڑنے کے منصوبے بنا رہے ہیں اور جن کے پاس وسائل نہیں وہ اندر ہی اندر ٹوٹ جاتے ہیں۔

ترک وطن اب کسی خاص طبقے کا مسئلہ نہیں رہی، یہ ایک اجتماعی خواب بن چکی ہے۔ جو نہیں جا سکتے وہ یہ سوچ کر غمگین رہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی راستہ کوئی ذریعہ نہیں کہ اپنے اور اپنے خاندان کے حالات میں سدھار لاسکیں۔

ریاستی بیانیہ عوام کے حقوق اور ان کے مسائل کیا ہیں سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایک عام آدمی کی زندگی کس طرح بسر ہو رہی ہے، اس کا اندازہ ہماری حکومت اور سیاسی نمایندوں کو بالکل بھی نہیں۔ یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔

عام پاکستانی کی زندگی میں کوئی نہ کوئی سانحہ روزمرہ کا حصہ بن چکا ہے۔ میڈیا شور مچاتا ہے مگر اس شور میں ہمدردی کم اور تماشا زیادہ ہوتا ہے۔ عام انسان خاموشی سے دکھ درد جھیل رہا ہوتا ہے اور یہی خاموشی سب سے زیادہ چیختی ہے۔ یہ چیخ ہمیں سنائی نہیں دیتی کیونکہ ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں۔

بائیں بازو کی سیاست جس سے کبھی نجات کی امید وابستہ تھی خود سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ کیا وہ بدلتی ہوئی زمینی حقیقت کو سمجھ رہی ہے یا اب بھی پرانے نعروں کی پناہ میں ہے؟

جب عوام تھک جائیں تو نظریے کو بھی نئے الفاظ، نئی زبان اور نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ نظریہ کتابوں میں زندہ رہتا ہے زندگی میں نہیں۔

اور اس سب کے باوجود اب بھی کچھ ختم نہیں ہوا۔ تھکن ہے مگر امید بھی ہے ایک بہتر کل کی، اس صبح کی جس کا خواب ہم سب نے دیکھا ہے۔ ایک جذبہ ایک ضد کسی فوری انقلاب کی نہیں بلکہ زندہ رہنے کی۔

لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ ان کے دکھ درد بانٹتے ہیں، یہ چھوٹے چھوٹے عمل اس بات کی علامت ہیں کہ انسان ابھی مکمل طور پر شکستہ نہیں ہوا۔ یہی چھوٹے عمل کسی بڑے امکان کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

 شاید سب سے اہم سوال یہ نہیں کہ یہ ملک کب بدلے گا بلکہ یہ ہے کہ کیا ہم اس تھکن کو پہچاننے کی ہمت رکھتے ہیں؟ کیونکہ جب تھکن کو سمجھ لیا جائے تو اس کا علاج بھی سوچا جا سکتا ہے لیکن اگر ہم اسے صبر یا مجبوری کا نام دے کر نظرانداز کرتے رہے تو ایک دن یہ صبر خاموش قبر میں بدل جائے گا۔

پاکستان آج محض معاشی بحران کا شکار نہیں ہے بلکہ ہماری سوچ کا مسئلہ ہے اور اگر انسان کی سوچ بیدار ہو جائے تو تھکا ہوا سماج بھی دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے۔

مقبول خبریں