اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ 1971 میں مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا وہاں کے عوام کی مرضی کے خلاف تھا۔ سقوط ڈھاکا دراصل بھارت کے مذموم منصوبے کے تحت ہوا اور مجیب الرحمن اور اس کی عوامی لیگ نے اس سازش کوکامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
جہاں تک مجیب کی پاکستان سے وفاداری کا تعلق ہے تووہ اگرتلہ سازش کیس میں ہی ثابت ہو چکی تھی کہ وہ بھارت کا ایجنٹ ہے اور وہ مشرقی پاکستان پر بھارت کو مسلط کرانا چاہتا ہے۔
پھر جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھا کہ بھارتی فوج نے مجیب کی عوامی لیگ اور مکتی باہنی کی مدد سے مشرقی پاکستان پر اپناتسلط قائم کر لیا۔ بنگالی مسلمانوں کے لیے یہ سانحہ ناقابل برداشت تھا۔
وہ اپنی سرزمین پر بھارتی قبضہ کسی بھی طرح قبول کرنے کے لیے تیارنہیں تھے مگر بدقسمتی یہ تھی کہ وہ بھارتی فوج اور مجیب کے پیروںکاروں کے نرغے میں پھنسے ہوئے تھے۔
ظلم کی انتہا یہ تھی کہ پاکستان کا نام تک لینا دشمن کو گنوارا نہ تھا اور جو بھی پاکستان سے محبت کا اظہار کرتا موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا مگر اس تمام ظلم کے باوجود بھی بنگالی مسلمانوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت نہ نکالی جا سکی گو کہ گزشتہ چون سال کے دوران وہاں کئی حکومتیں بنیں مگرسب پر ہی بھارت غالب رہا۔
کوئی بھی حکومت بھارت کے خلاف نہ جا سکی۔ عوامی لیگ پر بھارت کی خاص نوازش رہی کیونکہ وہ بھارت کے اشارے پر ہی چلتی رہی۔ اس پر بھارت اتنامہربان تھا کہ حسینہ کی حکومت 15 برس تک چلتی رہی اور کوئی بھی بنگلہ دیشی سیاسی پارٹی اسے نہ ہراسکی گو کہ عوام اس کے سخت خلاف تھے، دراصل حسینہ کو الیکشن میں جتانا ’’را‘‘ کی ذمے داری تھی۔
اسی لیے اسے عوام کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اس نے بھارت کی خوشنودی کے لیے کئی ایسے کام کیے جو سراسر عوامی خواہشات کے خلاف تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ حسینہ نے بنگلہ دیش کو بھارت کی ایک ریاست بنا دیا تھا اور خود بھارت کے لیے بنگلہ دیشی وزیر اعظم کے بجائے بھارتی ریاستی وزیر اعلیٰ بن گئی تھی۔
مودی حکومت اگرچہ کھلم کھلا مسلمانوں کی دشمن ہے اور بھارتی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، دراصل مسلمانوں کے ساتھ یہ برتاؤ اس کی بی جے پی پارٹی کے منشورکے عین مطابق ہے۔
بنگلہ دیشی مسلمان بھارتی مسلمانوں کے ساتھ اس ناروا رویے پر سخت نالاں ہیں مگر حسینہ نے خود اس ظلم کے خلاف کوئی آواز اٹھائی اور نہ بنگلہ دیشی مسلمانوں کو بھارت کے خلاف احتجاج کی اجازت دی۔ ویسے حسینہ کی اصل دشمنی تو پاکستان سے ہے مگر یہ دشمنی بھارت سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے ضروری بھی ہے بھارت کی شہ پر حسینہ نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر وہ ظلم کیا کہ وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب بن گیا۔
کئی رہنماؤں پر جھوٹے مقدمات بناکر پھانسی دے دی گئی۔ یہ دراصل حسینہ سے زیادہ بھارت کی ضرورت تھی۔
وہ بنگلہ دیش میں کسی پاکستان نواز پارٹی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے،کیونکہ اسے ڈر ہے کہ کہیں بنگالی مسلمان پھر پاکستان کی طرف لوٹ گئے تو اس کی ساری محنت اکارت چلی جائے گی تاہم وہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی بنگالی مسلمانوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت نہ نکال سکا اور پاکستان سے محبت محو ہوتی بھی تو کیسے کہ قیام پاکستان کی ذمے دار مسلم لیگ ہے اور مسلم لیگ 1906 میں ڈھاکا میں ہی قائم ہوئی۔
اس کے قیام میں بنگالی مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا تھا اور بعد میںقیام پاکستان میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھارتی حکومت مشرقی پاکستان پر قبضہ کرنے کے جتن کرتی رہی۔
حتیٰ کہ بھارتی فوج نے جنرل چوہدری کی سرکردگی میںمشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا مگر نہ صرف حملہ ناکام بنا دیا گیا بلکہ جنرل چوہدری کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان میں جیل میں ڈال دیا گیا۔
بدقسمتی سے 1971 میں بھارت مجیب الرحمن کے ذریعے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں کامیاب ہوگیا مگر یہ سب کچھ بنگالی مسلمانوں کی مرضی کے خلاف ہوا تھا۔
اب 54 برس بعد نہ صرف بھارت کی پٹھو حسینہ کو بنگلہ دیش سے باہر کر دیا گیا ہے بلکہ ملک کو بھارت کے شکنجے سے آزاد کرا لیا گیا ہے۔ یہ بنگلہ دیشی نوجوان اور عوام کی عظیم کامیابی ہے۔ اس کامیابی کا سہرا ایک نڈر و بے باک نوجوان شریف عثمان بن ہادی کے سر بندھا ہے۔
اس نے تو بنگلہ دیش سے ملحق بھارتی چھ ریاستوں کو بھی بنگلہ دیش میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ بس یہی اعلان لگتا ہے، اس کی شہادت کا سبب بن گیا۔
ویسے تو وہ پہلے سے ہی ’’را‘‘ کے نشانے پر ہوگا مگر اس نوجوان کا یہ نعرہ مودی سرکار کے سینے میں چبھ گیا اور اس نے فوراً اپنے دہشت گردوں کو حکم دیا ہوگا کہ جس طرح انھوں نے کینیڈا، آسٹریلیا، امریکا اور پاکستان میں دہشت گردی کے ریکارڈ قائم کیے ہیں اب وہ بنگلہ دیش میں بھارت کی سالمیت کو چیلنج کرنے والے عثمان ہادی کو فوراً ٹھکانے لگا دیں۔
بھارتی ’’را‘‘ تو پہلے سے ہی وہاں موجود ہے چنانچہ بھارتی دہشت گردوں نے ’’را‘‘ کی مدد سے عثمان ہادی کو ایک مسجد سے نماز کی ادائیگی کے بعد باہر نکلتے ہی گولیوں کا نشانہ بنا دیا۔
اس کے بعد دہشت گرد تو بحفاظت بھارت پہنچ گئے۔ ادھر عثمان ہادی کو گولیوں سے سر میں سخت زخم آنے کی وجہ سے سنگاپور بھیجنا پڑا مگر زخم اتنے گہرے تھے کہ وہ 18 دسمبر کو شہادت کے درجے پر فائز ہوگیا۔
اس کے جنازے میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ اب عثمان ہادی دنیا میں نہیں رہا، مگر اس کا مشن جاری ہے۔ اس کے دوست احباب کو اگرچہ ’’را‘‘ کی جانب سے سنگین دھمکیاں دی جا رہی ہیں مگر وہ اپنا مشن مکمل کرکے ہی دم لیں گے، جس کے نتیجے میں 12 فروری 2026 کے الیکشن میں ایک نئی حکومت حلف اٹھائے گی جو دنیا کو ایک آزاد خود مختار اور مسلم شناخت والے بنگلہ دیش سے روشناس کرائے گی۔
گو کہ یہ نئی صورت حال بھارت کے لیے ناقابل قبول ہوگی اور مودی بنگلہ دیش پر حملہ کرنے کی غلطی بھی کر سکتا ہے مگر اب بھارت کو منہ کی کھانا پڑے گی کیونکہ اب بنگلہ دیش بھارت کے لیے ترنوالہ نہیں رہا ہے، وہاں کے عوام جاگ چکے ہیں اور وہ بھارت کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ وہ کبھی نہیں بھول پائے گا۔