اس سال دسمبرکا مہینہ آیا اورگیا۔ وقت کی تیز رفتاری کا پتہ ہی نہ چلا۔ وقت بھی عجیب چیز ہے۔ جس کا فیتہ تو ویسے ہی گھوم رہا ہے، جیسے ہزاروں سال سے گھوم رہا تھا مگر ہمارے زاویے اس کو پرکھنے کے مختلف ہیں۔
کبھی یہ تیزی سے گزر جاتا ہے اورکبھی ایک لمحے پر بھی رک جاتا ہے۔ ہجر کی گھڑیاں کاٹے نہیں کٹتیں اور ایک ایک لمحہ طویل ہو جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ عمر گزر جاتی ہے، اگر مڑ کر دیکھیں اور لمحہ بھر احساس ہی نہیں ہوتا۔
اپنے پیاروں کا قیمتی ساتھ چھوٹ جاتا ہے۔ دل اب بھی یہی چاہتا ہے کہ واپس انھیں یادوں میں لوٹ جائیں۔ ان یادوں کے دریچوں سے وہ ہی بہاریں، خزاں، جاڑے اورگرمیاں اور گرمیوں کی وہ شامیں، وہ صحن، وہ گلیاں اورگلیوں میں کنچے کھیلنا، میرا لٹو، میری تختی، میری سلیٹ، وہ لالٹین کی روشنی، جب بجلی چلی جاتی تھی، وہ سب دیکھیں۔
وہ دادی کی لوریاں، وہ دھیرے سے امی کے سرہانے سو جانا، وہ گاؤں کی حویلی، وہ جھیل، جھیل کنارے بیٹھے پرندے، وہ تتلیوں کو پکڑنا اور پکڑ کے چھوڑ دینا۔ مکاں وہیں ہیں اور زمانے چلے گئے۔
زماں و مکان کا سنگم ہے یہ وقت۔ جو گزر گیا وہ مکاں اور جو چلا وہ زماں ! مکان تو اب بھی وہیں ہیں لیکن وہاں سے دادی چلی گئیں، پھر ابا چلے گئے، پھر امی چلی گئیں اور بڑے بھائی چلے گئے اور پھر ایک بہن بھی چلی گئیں۔
ہماری آبائی حویلی ایک پرانے مندر جیسا گمان دیتی ہے۔ ہماری آبائی مسجد جس کے اطراف میں ہمارا آبائی قبرستان جہاں صدیوں سے ہمارے بڑوں کی قبریں خاموش ہیں، وہ نیم کا درخت جو ہماری مسجد کی دہلیز پر تھا، اب بھی توانا ہے اور جس کے پتوں کی سرزنش اب بھی ہواؤوں کے ساتھ سنائی دیتی ہے۔
یہاں مجھے یہ کالم لکھتے ہوئے تیرہ سال گزر گئے۔ گزرتے وقت کے ساتھ میرے لکھنے کے زاویے بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ سوچ بدل چکی اور مزاج بھی بدل چکے ہیں۔
تجربے سے بڑی کوئی درسگاہ نہیں ہوتی، لکھائی سے اچھی کوئی عادت نہیں ہوتی، سوچوں اور خیالوں میں گھرے رہنا اور ادراک کرنا، یہ سب تجسس کی نشانیاں ہیں۔ پہلے زمانوں میں رومانوی تحریریں دل کو اچھی لگتی تھیں، شاعری میں گم سم رہنا اور حسن جوکہ خود ایک مضمون تھا اور ہم اس کے دیوانے۔
نہ جانے کتنے ناول اور کہانیاں پڑھیں ہو نگی جس کے کرداروں میں اکثر ہم گم ہوجاتے تھے۔ اب ایسی تحریروں کا دور ہے جو منطقی ہوں، ٹھوس شواہد کی روشنی میں کوئی دریافت ہو جس کو پڑھتے ہی دماغ کے طبق روشن ہو جائیں۔ جیسا کہ فیض کہتے ہیں کہ
دل سے مل آتے ہیں فقط رسم نبھانے کے لیے
کوئی یادوں کے دریچے سے اب بھی جھانکتا ہے وہ ہے میرا بچپن، میراصحن،کئی خواب، کھلونے، وہ پتنگیں، وہ ڈوریاں اور بارش کے پانی میں کاغذ کی کشتیاں۔ دسمبرکے مہینے کا شروع ہوتے ہی ان یادوں نے گھیرا ڈال دیا۔
فرصت بھی نہ مل سکی۔ عدالتوں میں سردیوں کی چھٹیاں ہیں مگر میرے لیے نہیں، کیوں کہ میں فوجداری مقدمات کا وکیل ہوں۔ اس سال مصروفیت زیادہ رہی اور جب دسمبرکا مہینہ آیا تو اس سے مل نہ سکا۔ ہم سخن بھی نہ ہوئے،کوئی دشتِ تنہائی بھی ٹھہری، نہ آواز کے سائے تھے نہ کسی پری وش کا خیال، بلکہ اپنے کام میں مگن، میں اپنے کیسزکے دلائل کو سمت دینے لگا۔
قانون کی کتابوں میں الجھا رہا اور اب چند دن ہی باقی ہیں، دسمبر اور اس سال کو الوداع کہنے میں۔ نیا سال شروع ہونے کو ہے اور میرا اگلا مضمون بھی نئے سال میں ہی شایع ہوگا۔ بالکل ایسی ہی کہ ’’دنیا نے تیری یادوں سے بیگانہ کردیا۔‘‘
یہ کائنات کچھ نہیں، وقت کی تاریخ ہے۔ اس میں کئی کہکشائیں ہیں اور وہ بھی وقت ہے۔ محبت بھی وقت ہے، ہجر بھی وقت ہے۔ جنگ بھی وقت ہے اور امن بھی وقت ہے۔ اب دسمبرکے باقی چند دنوں کے کچھ لمحے رہتے ہیں، ماضی کی طرح ۔
چلو منطق سے نکل کر پھر حسن کا قیدی ہو جاتا ہوں، چند دن جو باقی ہیں، اس کائنات کے وشال سمندر میں، وقت کے گھنٹہ گھر میں، جہاں صرف وقت ہی رہتا ہے، جو زماں ہے جو مکاں ہے، جو خود زماں و مکاں کا سنگم ہے۔
جو سخن جو ہم نے رقم کیے
یہ ہیں سب ورق تیری یاد کے
کوئی لمحہ صبح وصال کا
کوئی شامیں ہجرکی مدتیں
دل ایک شاعر من تھا۔ جب سے logic کی طرف لوٹا ہوں، توکیا دیکھتا ہوں کہ شاعری تو خود ایک ریاضیات کا مضمون ہے۔ Algorithm جو کہ مصنوعی ذہانت کی زبان ہے، یہ انسان کے ارتقاء کا نچوڑ ہے۔ ہزاروں سال کا سفر طے کرتے کرتے اس زبان کی ایجاد ہوئی ہے۔
یہ زبان بنائی نہیں گئی، اس زبان کی دریافت ہوئی ہے۔ یہ زبان کائنات کے گوشے گوشے میں رہتی ہے۔ ہر نقش پر اس کا عکس ہے،کیونکہ مصنوعی ذہانت جو آپ کو چیٹ بوٹ دیتی ہے، اس زبان سے پراسز کر کے آ پ کی زبان میں اس کو تبدیل کرتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کا تمام پراسز انسانی محنت کا ثمر ہے۔ یہ ایک بھیڑ ہے اور ہم اکیلے ہیں۔ ہم اب Information پر چلتے ہیں، اگر ایک روٹی سے ہمیں اپنی بھوک مٹانی ہے تو جو چیٹ بوٹ پر ہوتا ہے، وہ ہمارے ذہن کی خوراک ہے۔
اب ہم انسانوں کو پرانے خیالات سے نکلنا ہوگا،کیونکہ اب انسانوں کا مقابلہ مشینوں سے ہے۔ مصنوعی ذہانت کا ایک چیٹ بوٹ ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کے برابر ہے اور وہ ایک فرد ہے، جس کی عمر پانچ سال بھی نہیں ہوتی اور ایک نئے چیٹ بوٹ کی ایجاد ہو جاتی ہے جو پہلے سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
اس مشین کی ارتقاء بھی انسانوں کی طرح سے ہے جو غاروں سے نکل کر کھیتی باڑی اور پھر شہروں کو آباد کیا۔یہ مصنوعی ذہانت ان سو سالوں کا ثمر ہے جوکمپیوٹر بننے سے وجود میں آیا اور پھر تصور کریں کہ آگے آنے والے سو سال میں دنیا کتنی بدل چکی ہوگی۔
دنیا میں کوئی ملک نہ ہو گا، دنیا ایک بن چکی ہوگی، کرنسی ایک ہوگی اور توانائی شمسی ہوگی۔ اتنی ہی تیز رفتاری سے جیسا کہ دسمبر آیا اور چلا بھی گیا۔
بس کچھ پل ملے، میری ان سطروں کی طرح:
میں کہ ہوں کوئی راہ،
پت جھڑ کے موسم کی
لو ابھی دامن جھاڑا نہیں،
کہ پھر زرد پتوں سے بھرگئی ہوں