میرے کئی دوست امیر ہیں لیکن امیر ’’ترین‘‘ کوئی نہیں،آج مجھے کسی ایسی شخص کی کمی محسوس ہو رہی ہے جس سے میں امیروں کی مینٹیلیٹی جان سکتا،دراصل مجھے ملتان سلطانز کا معاملہ سمجھ نہیں آ رہا۔
میں سادہ الفاظ میں بتاتا ہوں،سلطانز کے اونرز نے ایک ٹیم ایک ارب 8 کروڑ روپے سالانہ فیس کے عوض خریدی، غیرملکی کمپنی نے جو ویلیوایشن کی اس میں فیس اضافے کے ساتھ شاید ایک ارب 35 کروڑ ہو جاتی۔
البتہ علی ترین کے سلطانز کی حد تک معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکے تھے،اب پی سی بی نے تصدیق بھی کر دی کہ وہ خود پی ایس ایل 11 میں ملتان کے معاملات سنبھالے گا۔
محسن نقوی کی دوسری پوسٹ کے سبب سب ان سے ڈرتے ہیں، علی نے بھی وہی کیا جو دوسرے کرتے ہیں، تنقید کا نشانہ چیئرمین نہیں بلکہ لیگ کے سی ای او سلمان نصیر کو بنایا۔
آپ کو کیا لگتا ہے باقی 5 فرنچائز کو بورڈ سے کوئی شکایت نہیں؟ یقینی طور پر ہو گی لیکن وہ میڈیا پر آ کر بھڑاس نہیں نکالتے،اس کے لیے میٹنگ بہترین پلیٹ فارم ہے۔
ملتان سلطانز کے اونر نے کئی باتیں غلط نہیں کیں، واقعی لیگ کے معاملات میں بہتری کی ضرورت ہے، اونرز کو وہ عزت نہیں دی جاتی جس کے وہ مستحق ہیں،کئی اہم معاملات میں کوئی مشاورت بھی نہیں ہوتی، البتہ علی نے سلمان کیلیے بعض ایسے الفاظ استعمال کیے جو نہیں کرنے چاہیے تھے۔
ابتدا میں بورڈ خاموش رہا لیکن پھر نوٹس بھیج دیا، معاملہ اس وقت بھی ختم ہو سکتا تھا لیکن علی ترین نے سلمان خان کے اسٹائل میں ایک ویڈیو میں نوٹس پھاڑ کر پھینک دیا، وہ بڑے باپ کے بیٹے ہیں شاید کوئی اور فرنچائز ہوتی تو پہلے ہی نشان عبرت بنا دیا جاتا لیکن سلطانز کے ساتھ ایسا نہ ہوا،معاملہ اس نہج تک پہنچنا ہی نہیں چاہیے تھا۔
علی ترین بھی اچھے انسان ہیں یقینی طور پر انھیں لڑائی کا شوق نہیں ہوگا، وہ خود بھی کہہ چکے تھے ہونا بھی یہی چاہیے تھا کہ انھیں چائے پینے کیلیے بلایا جاتا، بند کمرے میں شکوے شکایت ہوتے پھر وہ اور سلمان ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے باہر آ جاتے، البتہ معاملہ انا کا ہو گیا۔
بورڈ والوں نے بھی ان سے یہ کہا کہ معافی مانگو، سوشل میڈیا پوسٹ اور ویڈیوز ڈیلیٹ کرو پھر واپس آ جاؤ، ایسا کرنے سے انھوں نے جو عوام میں امیج بنایا اس کا کیا بنتا؟
اسی لیے انھوں نے اگلی ویڈیو میں ٹیم کو الوداع کہنے کا پیغام دیا، پی سی بی نے پہلے ہی انھیں معاہدے کی تجدید کیلیے آفر نہیں کی تھی لہٰذا فرنچائز ہاتھ سے نکل گئی، معاہدہ ٹرمینیٹ کیا جاتا تو زیادہ شور مچتا، اب کاغذی حد تک 31 دسمبر کو کنٹریکٹ مکمل ہونے کی بات ہو گی۔
اگر کہانی یہیں ختم ہو جاتی تو کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن اصل ٹوئسٹ اس وقت آیا جب پتا چلا کہ ترین گروپ 2 نئی ٹیموں کی بڈنگ میں بھی شامل ہے،یہ بولی ہی ممکنہ طور پر سوا ارب روپے سے شروع ہوگی جو ڈیڑھ ارب یا زائد تک بھی جا سکتی ہے۔
اب اگر علی ترین نے مہنگی ٹیم لی تو اتنی لڑائی کا کیا فائدہ ہوا؟ اگر فیس ان کیلیے اہمیت نہیں رکھتی تھی تو شور کیوں مچایا، ویسے لوگ یہی کہتے ہیں کہ پیسہ ترینز کیلیے کوئی مسئلہ نہیں، چند کروڑ سالانہ نقصان سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑنا۔
سابقہ اونرز کو لگتا تھا کہ لیگ کا ماڈل ٹھیک نہیں، اونرز کو عزت نہیں دی جاتی تو کیا اب نئے مالکان سب کچھ ٹھیک کرا دیں گے یا انھیں زیادہ عزت ملے گی؟
ظاہر ہے سب کچھ پہلے جیسا ہی رہے گا، البتہ انھیں سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ اتنی محنت سے مرحوم چچا عالمگیر ترین نے جو برانڈ ملتان سلطانز بنایا وہ ہاتھ سے نکل گیا، اب نئی ٹیم کا نام بھی نیا ہوگا۔
ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے کہ بڈ جیتنے پر ایک بار 10 لاکھ ڈالر دے کرمرضی کا نام رکھ لیں، پھر سوال یہی اٹھتا ہے کہ اتنا خرچہ اور مشقت کرنے کی ضرورت کیا ہے ملتان سلطانز کو چھوڑتے ہی نہیں۔
آپ کو پی ایس ایل کے فنانشل ماڈل کا علم ہی ہو گا، اس میں سب کی فیس الگ لیکن سینٹرل انکم پول میں حصہ یکساں 95 فیصد ہے، چند کروڑ یا ایک ارب سے زائد فیس دینے والا منافع ایک ہی پاتا ہے، نئی ٹیم اگر فرض کریں سوا ارب کی فروخت ہوئی، اسے کھلاڑیوں،کوچز کے معاوضوں، سفری، رہائشی انتظامات وغیرہ پر کم از کم 50 کروڑ روپے تو خرچ کرنا ہی پڑیں گے۔
پی سی بی نے دونوں نئی ٹیموں کے ممکنہ اونرز کو 3 سال تک کم از کم 85 کروڑ روپے ہر سال سینٹرل پول انکم شیئر دینے کا فیصلہ کیا ہے، کمی ہوئی تو بورڈ ہی پورا کرے گا۔
اپنی اسپانسر شپ سے 20،25 کروڑ روپے کما لیے تب بھی آغاز میں اپنی جیب سے ہی رقم خرچ کرنا پڑ سکتی ہے، البتہ بڈنگ میں شریک پارٹیز بہت تگڑی ہیں، ان کا یقینی طور پر اپنا کوئی ماڈل ہو گا، گھاٹے کا سودا کوئی بزنسمین نہیں کرتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملتان سلطانز کے مالکان جاتے جاتے بھی ایک ایسا کام کر گئے جس سے دیگر اونرز مشکل میں پھنس گئے، بیشتر نے ویلیوایشن میں خود کو خسارے میں بتایا، البتہ سلطانز نے منافع ظاہر کیا۔
اب سوال یہ اٹھا کہ ایک ارب 8 کروڑ فیس والی ٹیم تو فائدے میں ہے چند کروڑ والی فرنچائز نقصان میں کیسے ہیں؟ محسن نقوی پی ایس ایل پر بہت محنت کر رہے ہیں، ان کی پوری کوشش ہے کہ اچھی قیمت پر دونوں ٹیمیں فروخت کی جائیں۔
انھوں نے اسٹیڈیمز کی شکل بدل دی، بھارتی کرکٹ بورڈ کو چاروں شانے چت کر دیا، اب اس چیلنج پر بھی پورا اترسکتے ہیں، لہذا اگر سلطانز کے اونرز نے یہ سوچا کہ وہ نئی ٹیم سستے داموں خرید لیں گے تو یہ ان کی خوش فہمی ہو سکتی ہے۔
پہلے بھی ان سے مس کیلکولیشن ہوئی، شاید نجم سیٹھی یا ذکا اشرف چیئرمین ہوتے تو داؤ چل جاتا لیکن یہاں محسن نقوی ہیں جو بڑوں بڑوں پر بھاری پڑ جاتے ہیں، کئی سیاستدان اور بڑی شخصیات بھی درمیان میں آئیں لیکن بورڈ نے معافی سے کم کوئی بات قبول نہیں کی۔
بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ علی ترین نے اتنی سخت باتیں کیں انھیں تو اب بڈنگ میں شریک ہی نہیں ہونے دینا چاہیے تھا لیکن میرا خیال ہے کہ بورڈ نے ٹھیک کیا، ان کو آنے دیں دیکھتے ہیں کہاں تک بولی لگاتے ہیں۔
اگر روک دیا جاتا تو پھر کہتے ہمارے ساتھ ظلم ہوا پہلے پرانی فرنچائز واپس لے لی اب نئی خریدنے نہیں دے رہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ 8 جنوری کو ایک ٹیم کیا ترینز کے پاس جاتی ہے یا دیگر اعلیٰ ترین اور امیر ترین لوگ ٹیم خرید لیتے ہیں۔
البتہ میں ایک ہاتھ سے ٹیم چھوڑنے اور دوسرے ہاتھ سے نئی ٹیم کو پکڑنے کی ’’حکمت عملی‘‘ نہیں سمجھ سکا، اگر آپ کو کچھ سمجھ آیا ہو تو ضرور بتایئے گا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)