چند روز قبل کی بات ہے بھارت کے صوبے بہار میں میڈیکل کے فارغ التحصیل طلبا کو ملازمت کے احکام کی تقسیم کی تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب کے مہمان خصوصی صوبہ بہار کے وزیر اعلیٰ شری نیتن کمار مہودے تھے۔ وہ طلبا میں ملازمت کے حکم نامے تقسیم فرما رہے تھے۔
ایک مسلمان لڑکی جو نقاب لگائے ہوئے تھی حکم نامے کی وصولی کے لیے حاضر ہوئی، وزیر اعلیٰ نے مسکراتے ہوئے اس کے نقاب کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا ’’ اسے تو ہٹا دو‘‘ اور اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر خود ہی اس کے چہرے سے نقاب کھینچ لیا۔ نائب وزیر اعلیٰ بہار جو ساتھ ہی کھڑے تھے شریمان چیف منسٹر کو اس حرکت سے روکتے رہ گئے مگر انھوں نے اس کام میں وہ عجلت دکھائی جو کھلاڑی کیچ پکڑنے میں کرتے ہیں۔
بھارت کہنے کو ایک سیکولر ملک ہے مگر عملی صورت حال یہ ہے کہ وہ ایک بنیاد پرست ہندو مملکت ہے اور آئے دن بھارت سے ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جو اس کے سیکولر ازم کی نقاب کشائی کرتی رہتی ہیں۔ نیتن کمار جی کی یہ حرکت بھی دراصل لڑکی کے چہرے سے نقاب اتارنا نہ تھی بلکہ بھارت کے سیکولر چہرے کی نقاب کشائی تھی۔
ایسی صورت حال میں کون کہہ سکتا ہے کہ بھارت میں اقلیتیں محفوظ ہیں یا انھیں اپنے انداز میں جینے کا حق حاصل ہے۔نیتن کمار جی نے اقتدار و اختیار کے زعم میں آ کر جو حرکت کی وہ بھارت کی بین الاقوامی بدنامی کا باعث ہوگی۔ ابھی اس حرکت پر بھارتی اپوزیشن لیڈر کا ردعمل آیا ہے جو کانگریس کے معروف لیڈر ہیں مگر یہ ردعمل اس حرکت کے مقابلے میں بہت ہلکا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کا مجموعی مزاج بھارت کے اس رویے کا موثر دفاع کر سکتا ہے یا بات آئی گئی ہو جائے گی۔خیال رہے کہ بھارت کے صوبے بہار میں اگلے ماہ میں انتخاب ہونے جا رہے ہیں ایسے موقع پر ایک ایسے وزیر اعلیٰ کی طرف سے اس قسم کی حرکت جو خود اکثریت کا حامل نہ ہو بلکہ دوسری جماعتوں کے کاندھے پر چڑھ کر اقتدار کے مزے لے رہا ہے۔ اس نے یہ حرکت کر کے مسلم ووٹوں سے اپنے آپ کو محروم کر لیا ہے۔ ابھی تو اس حرکت پر عالمی ردعمل آنا باقی ہے۔ البتہ یہاں پاکستان میں ایک ٹرینڈ چل پڑا ہے جس میں کہا گیا ہے "Thank you Jinnah for giving us Pakistan"۔
واقعہ یہی ہے کہ اس قسم کی وارداتیں اہل پاکستان کو بڑا سکون اور ایک قسم کا عزم مہیا کرتی ہیں کہ قائد اعظم کی جدوجہد سے ہم کو یہ آزاد اور خود مختار ملک ملا جس میں ہم اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی روایات کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔ اگر یہ خطہ ارضی بھی میسر نہ آتا تو ہمارا کیا حال ہوتا؟ Again Thank you Jinnah۔ لیکن ان سب دنیوی فتوحات کے ساتھ ہم خدائے عظیم کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں ہندو ذہن کی بالادستی سے نجات دی۔
شری نیتن کمار جی کے سوچنے کی یہ بات بھی ہے کہ جس طرح اقتدار کے نشے میں آ کر انھوں نے ایک مسلمان لڑکی کے ساتھ حرکت کی، اگر کوئی سر پھرا ان کے ساتھ یہ حرکت کر گیا تو کیا ہوگا؟ کوئی بھی آپ سے کہہ سکتا ہے کہ دنیا ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ انسان چاند پر جا اترا ہے اور اب خلائیں اس کی دسترس میں ہیں۔ ایک آپ ہیں کہ آپ آج تک سلے کپڑے پہننے کے لائق نہیں ہوئے اور یہ کہہ کر آپ کے لباس کو اسی طرح نوچے کہ جس طرح آپ نے ایک مسلمان لڑکی کا نقاب نوچا تھا تو آپ تو کہیں کے نہیں رہیں گے۔
حذر اے چیرا دستاں بخت ہیں قدرت کی تقریریں
ادھر ایک دوسرا رخ مملکت خداداد پاکستان کا ہے۔ یہ ملک دنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر اور اسلامی نظام کے نفاذ کی خاطر وجود میں آیا تھا۔ اب تو اس مملکت کو وجود میں آئے ایک صدی ہونے کو آئی۔ اگر اس میں اسلام کا نفاذ ہونا تھا اس کے طرز حکمرانی میں، اس کی معاشرت میں، لین دین اور تجارت میں، تعلیم و تربیت غرض زندگی کے تمام پہلوؤں میں نہیں تو کچھ میں تو اسلام کی جھلک نظر آتی۔ اجتماعی طور پر کچھ نہ ہو سکا تو انفرادی زندگیوں پر ہی اسلام کا سایہ پڑتا نظر آتا مگر:
اے بسا آرزو کہ خاک شدی
سیاست کی دنیا میں ہم ’’ طوائف الملوکی‘‘ میں مبتلا ہیں۔ ہم نے اپنے دستور میں اپنی منزل نظام اسلام کو قرار دیا ہے مگر کیا ہم نے اس سمت میں کوئی اقدام اٹھایا ہے، کیا ہم نے اپنے نظام تعلیم ہی کو اسلامی بنیادوں پر استوار کر کے جو نظام اسلام کے برپا ہونے کی بنیاد بنتا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یہاں دو نظام تعلیم رائج ہیں ایک غربا اور مساکین کے لیے جس میں درجہ تعلیم اردو، دینیات بھی پڑھائی جاتی ہے مگر ہر قسم کی پڑھائی لکھائی بس نام کو ہوتی ہے ہوتا ہواتا کچھ نہیں۔دوسرا نظام تعلیم انگریزی ہے۔
مسلمان لڑکوں کو ذہنی طور پر مغرب آشنا بلکہ مغرب زدہ بنانے کا کارخانہ ہے ان کا نصاب تعلیم انتہائی قیمتی، ان کا طرز تدریس زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور یہاں کے فارغ التحصیل افراد یہاں سے فارغ ہو کر مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں اور اسی معاشرے کے کل پرزے بنتے ہیں۔بات دور تک نکل گئی۔ کہنا یہ تھا کہ ہم نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزار دیا مگر ہم قوم نہ بن سکے۔ قومی مفادات ہماری ترجیحات میں شامل نہ ہو سکے۔ ہم سب جانے، ان جانے میں ملک کی تباہی کے درپے ہیں۔
یہ کیسا اسلامی ملک ہے جس کے کسی شعبے پر اسلام کا سایہ بھی نہیں پڑا۔ ذرا یہ خبر دیکھ لیجیے ہمارے معاشرے کا کریم کیا کر رہا ہے اور ہم کدھر جا رہے ہیں۔پچھلے دنوں کراچی میں منشیات کی ایک بڑی کھیپ پکڑی گئی، 14 ملزمان بھی گرفت میں آئے اور ان سے 28 کروڑ مالیت کی 468 کلو چرس اور چالیس کلو آئس برآمد ہوئی۔ عام طور پر برآمد شدہ منشیات کو جلا کر خاکستر کر دیا جاتا ہے مگر اب ہمارے ’’ارباب حل و عقد‘‘ نے منشیات کی یہ بے حرمتی گوارا نہیں کی بلکہ یہ 28 کروڑ روپے کی قیمتی منشیات دوبارہ منشیات فروشوں کو فروخت کر دی گئیں۔اب یہ خبر اخبارات کی زینت بن گئی۔ اب تحقیقات ہوں گی اور درتحقیقات ہوں گی۔ انتظارکیا جائے گا لوگوں کے ذہن سے یہ واقعہ محو ہو جائے اور پھر سارے مجرم بھی رہا ہو جائیں گے۔ منشیات ’’ محفوظ ہاتھوں‘‘ میں پہنچ ہی چکی ہیں ،حصے بخرے بھی مستحقین تک پہنچا دیے جائیں گے، اللہ اللہ خیر صلہ۔