وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کا دَورئہ لاہور: چند تاثرات

جناب سہیل آفریدی نے لاہور میں تین دن بھرپور گزارے اور واپس تشریف لے گئے ۔ خیبر پختونخوا موجودہ ایام میں نازک حالات سے گزر رہا ہے


تنویر قیصر شاہد December 29, 2025
[email protected]

خیبر پختونخوا کے نوجوان اور پُر جوش وزیر اعلیٰ، جناب سہیل آفریدی، تین روز کے لیے پنجاب کے دمکتے چمکتے صوبائی دارالحکومت، لاہور، تشریف لائے ۔اُن کے ساتھ کئی پُر جوش پارٹی عشاق بھی تھے اور کئی ارکانِ صوبائی اسمبلی بھی ۔سبھی ایسے جارحانہ جوش و جذبے سے لَیس نظر آ رہے تھے جیسے کسی شہر کو فتح کرنے تشریف لارہے ہوں۔

یہ سب حضرات جس مقصد اور ہدف کے حصول کے لیے لاہور تشریف لائے ، کہا جا سکتا ہے کہ کسی حد تک وہ مقصد پورا ہُوا ہے ۔ مگر مقصد اور ہدف تھا کیا؟ یہی کہ بانی پی ٹی آئی کے نام کا غلغلہ بلند کیا جائے ، نون لیگ کے سیاسی قلعہ، لاہور، بھر میں پی ٹی آئی کے پرچموں کی بہار دکھائی جائے اور یہ کہ لاہور کی سڑکوں پر ایسے سرگرمیاں دکھائی جائیں کہ اسیر بانی پی ٹی آئی کا نام اور کام گھر گھر پہنچ جائے ۔ اور یہ بھی کہ سوشل میڈیا پر ایک طوفان کی سی صورتحال پیدا کی جائے ۔

جناب سہیل آفریدی کے تین روز دَورہ آمد پر لاہور بند اور منجمد تو نہ ہُوا ، مگر شدید ہلچل محسوس ہوتی رہی ۔ شاید یہ بھی ایک مقصد تھا۔وطنِ عزیز کے مین اسٹریم میڈیا پر وزیر اعلیٰ موصوف کی لاہور آمد اور اُن کی ’’زبردست‘‘ مصروفیات کا ذکر نہ ہونے کے برابر رہا ، مگر سوشل میڈیا پر محفلیں خوب جمتی رہیں ۔ اور سوشل میڈیا پر جمی دھماچوکڑی کی موجودگی میں کہا جا سکتا ہے: ہم ہیں تو کیا غم ہے !

 وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا،جناب سہیل آفریدی، ایسے وقت میں طوفان کی طرح لاہور میں داخل ہُوئے جب اسلام آباد میں متحدہ عرب امارات کے محترم صدر، شیخ محمد بن زید النہیان، قدم رکھ رہے تھے ۔ اِسی مقصد کے لیے اسلام آباد میں تعطیل بھی کی گئی تھی ، تاکہ یہ حساس دَورہ خیر خیریت سے گزر جائے اور پی ٹی آئی کے متوقع احتجاج سے بھی بچا جائے ؛ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی نے ایک بار پھر اپنی ’’روائت‘‘ نبھا دی ہے کہ جب بھی وطنِ عزیز میں کوئی غیر ملکی معزز ترین مہمان تشریف لاتا ہے، پی ٹی آئی کے قدموں میں ’’تحرک ور ارتعاش‘‘ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اسلام آباد کے بعد معزز عرب مہمان رحیم یار خان تشریف لے تو گئے ، مگر اندازے یہی ہیں کہ سہیل آفریدی صاحب اور اُن کے ساتھ لاہور آنے والے پی ٹی آئی کے عشاق کی ’’سرگرمیوں‘‘ کی بازگشت رحیم یار خان بھی پہنچی ہوں گی ۔

 لاہور پر بھی سہیل آفریدی صاحب کا اُتنا ہی حق ہے جتنا محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کا ۔ وجہ یہ ہے کہ لاہور اور پشاور پاکستان ہی کے دو خوبصورت شہر ہیں (اگرچہ لاہور خوبصورتی میں محترمہ مریم نواز شریف کی متعدد کاوشوں کے کارن پشاور سے کہیں آگے نکل چکا ہے ) پشاور پر بھی محترمہ مریم نواز شریف کا اُتنا ہی حق ہے جتنا سہیل آفریدی صاحب کا ۔بعض شرارتی صحافیوں ( جن میں سوشل میڈیا کے متحرک صحافیوں کی تعداد زیادہ محسوس کی گئی) نے سہیل آفریدی صاحب سے لاہور اور پشاور کے تقابل بارے استفسار بھی کیا ، مگر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ایسے سوالات پر بُرا مان گئے۔انھیں خندہ پیشانی سے ایسے سوالات کا سامنا کرنا چاہیے تھا، خوشگوار مُوڈ میں جوابات بھی دینے چاہئیں تھے ، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اُن کے جوابی ’’وار‘‘ میں تلخی کاعنصر غالب رہا ۔

سہیل آفریدی صاحب کے چہرے پر یوں تو مسکراہٹ طاری رہتی ہے ، مگر تین روزہ دَورئہ لاہور کے دوران اُن کے نوجوان اور خوبصورت چہرے پر تیوروںاور کھچاؤ کی لکیریں چھائی رہیں ۔ تقریباً یہی حال اُن کے ساتھیوں کا بھی محسوس کیا گیا ۔ لیکن یہ غصہ اور تناؤ کیوں تھا؟ کیا اس لیے کہ لاہور میں سہیل آفریدی صاحب اور اُن کے ساتھیوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہ دیا گیا ؟ لیکن محترمہ مریم نواز شریف کی وزیر اطلاعات ، محترمہ عظمیٰ بخاری ، نے تو پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ ’’ ہم انھیں بھرپور پروٹوکول دے رہے ہیں۔ سہیل آفریدی صاحب لاہور تشریف لائے ہیں تو وہ اور اُن کے ساتھی خوبصورت لاہور سے انجوائے کریں ۔ روٹی شوٹی کھائیں اور اچھے ماحول میں ویک اینڈ گزاریں۔‘‘ مگر سہیل آفریدی ، اُن کے ساتھیوں اور پی ٹی آئی کے عشاق نے اِن الفاظ کو بھی طنز سے معنون کیا ۔

جناب سہیل آفریدی نے لاہور میں تین دن بھرپور گزارے اور واپس تشریف لے گئے ۔ خیبر پختونخوا موجودہ ایام میں نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ کے پی کے کو سہیل آفریدی اور اُن کی ٹیم کی بھرپور توجہ کی ضرورت ہے، لیکن حیرانی کی بات ہے کہ سہیل آفریدی صاحب اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ ، سرکاری اخراجات پر، لاہور میں سرگرم رہے۔ انھوں نے وکلا سے جو شیلا خطاب کیا، وہ داتا صاحب ؒ کے مزار شریف پر حاضر ہُوئے ، انھوں نے مبینہ رکاوٹوں کے باوجود زمان پارک کا دَورہ کیا، بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرگان سے ملے، شاہ محمود قریشی اور سابق گورنر میاں اظہر مرحوم کے گھر تشریف لے گئے ، میاں اظہر کی تعزیت کی ، فوڈ اسٹریٹ کھانا کھانے گئے، پی ٹی آئی کے متعدد کارکنوں سے بھرپور میل ملاقاتیں کیں اور دل کی ساری بھڑاس نکالی ۔

اِس کے باوجود انھیں شکوہ کرتے پایا گیا کہ اُن کے راستوں اور سرگرمیوں میں پنجاب حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کیں ۔ یہ ایک آئیڈیل صورت ہوتی اگر وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف انھیں خود ملتیں ، اُن کے اعزاز میں کھانے کا اہتمام کرتیں۔ جواباً خیر سگالی دَورے کے لیے سہیل آفریدی بھی محترمہ مریم نواز شریف کو پشاور کے دَورے کی دعوت دیتے ۔ لیکن سہیل آفریدی کے ساتھ لاہورآئے جناب مینا خان آفریدی نے پنجاب اسمبلی کے اندر کھڑے ہو کر مریم نواز شریف بارے جو زبان استعمال کی ، اِس کے بعد سہیل آفریدی اور اُن کے ساتھ آنے والوں کے لیے لاہور میں خوشگوار صورتحال کیسے باقی رہ سکتی تھی ؟ حیرت کی بات ہے کہ سہیل آفریدی صاحب نے بین السطور بھی مینا خان آفریدی کے الفاظ کی مذمت نہیں کی ۔

مینا خان آفریدی کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں ۔ وہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن ہیں ۔ دوسری بار صوبائی وزیر بنے ہیں ۔ پہلی بار وہ ہائر ایجوکیشن کے وزیر تھے ، مگر انھوں نے پنجاب اسمبلی میں جو زبان استعمال کی، وہ کسی ایسے شخص کی نہیں تھی جو ہائر ایجو کیشن کا وزیر رہا ہو ۔ کہا گیا ہے کہ اُن سے(غیر مناسب) سوال پوچھ کر انھیں مشتعل کیا گیا تھا ۔ بعض اطراف سے بجا طور پر اُس صحافی پر سخت تنقید کی گئی ہے جس نے مبینہ سوال پوچھا تھا۔لیکن مینا خان آفریدی بِلا وجہ اشتعال میں آ گئے ۔ شاید وہ کوئی بہانہ ڈھونڈ رہے تھے ۔ پی ٹی آئی بار بار یہ غلطی کررہی ہے کہ یلغار اور دھونس کے ساتھ وہ اپنی مقصد براری کر سکتے ہیں ۔سہیل آفریدی صاحب نے کے پی اسمبلی میں جو لہجہ اختیار کر رکھا ہے ، اُسی لہجے اور اسلوب کی ’’گھن گرج‘‘ کو لاہور میں بھی جاری رکھنے کی کوشش کی گئی ، مگر یہ اسلوب کامیاب رہا نہ کامیاب ہو سکتا ہے ۔

پی ٹی آئی اپنے بانی کے مبینہ حکم سے 8فروری 2026کو پورے ملک میں ’’پہیہ جام‘‘ کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے ۔ تو کیا سہیل آفریدی صاحب کا تین روزہ دَورئہ لاہور اِسی مبینہ پروگرام کی اوّلین مشق تھی ؟یقیناً سہیل آفریدی صاحب اور اُن کے ساتھ یقینِ محکم سے لاہور تشریف لانے والوں کو بھی پنجاب حکومت اور لاہور انتظامیہ سے کئی گلے شکوے ہوں گے ۔ لاہور میں سہیل آفریدی صاحب اور اُن کے ساتھیوں نے تین دن تک جو کچھ کیا ہے ، کیمرے کی لاتعداد آنکھوں نے یہ سب مناظر محفوظ کر لیے ہیں ۔ آیندہ کئی ایام تک اِن پر تبصرے اور مباحث ہوتے رہیں گے ۔ یہ تین روز اب تاریخ بن گئے ہیں۔سوال مگر یہ بن گیا ہے کہ سہیل آفریدی صاحب کے دَورئہ لاہور کے بعد پشاور اور لاہور ایک دوسرے سے دُور چلے گئے ہیں یا مزید قریب آ گئے ہیں؟ کہا جا سکتا ہے کہ سہیل آفریدی صاحب کا تین روزہ دَورئہ لاہور 2025میں پی ٹی آئی کی آخری یادگار سرگرمی تھی جو بانی کو بھی خوش کر گئی ہوگی۔

مقبول خبریں