مالدار صوبوں کا محتاج وفاق

کہا جاتا ہے کہ پنجاب و کے پی میں غیر مقبولیت کے بعد صدر آصف زرداری کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آیندہ وفاق میں پی پی اقتدار میں نہیں آ سکے گی


محمد سعید آرائیں December 29, 2025
[email protected]

صدر مملکت آصف زرداری نے 2008کی پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں سینیٹر میاں رضا ربانی کی سربراہی میں آئین میں 18 ویں ترمیم متفقہ طور پر کروائی تھی جس کے ذریعے چاروں صوبوں کو مالی اور انتظامی طور پر اتنا بااختیار کرا دیا تھا کہ جس کے نتیجے میں صوبے انتظامی طور پر بہت زیادہ بااختیار اور مالدار بنا دیے گئے تھے اور وفاق کو کمزور کرکے صوبوں کا متعدد معاملات میں محتاج بنا دیا گیا تھا۔

اس وقت پیپلز پارٹی ملک میں وہ مقبولیت کھو چکی تھی جو اسے بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے 2008میں حاصل ہوئی تھی، مگر 1970 کے الیکشن میں بھی مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے واضح اکثریت اور سندھ و پنجاب میں بھٹو کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے صرف اکثریت ضرور حاصل کی تھی اور بلوچستان اور صوبہ سرحد میں پی پی کی اکثریت نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) کی طرح ملک میں کبھی دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی، البتہ سندھ میں 2008 سے پیپلز پارٹی چار انتخابات میں مسلسل واضح اکثریت حاصل کرتی آ رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو نے دو اور ان کے بعد 2008 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی جو بھی وفاقی حکومتیں قائم ہوئیں وہ دوسری پارٹیوں کو ملا کر بنائی گئیں جن میں صرف 2008 کی حکومت اپنی مقررہ مدت پوری کر سکی تھی۔

2007 میں بے نظیر کی شہادت کے نتیجے میں ہمدردی کا ووٹ صرف سندھ میں پی پی کو ملا تھا جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ نے اپنی حکومت بنائی جب کہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں مخلوط حکومتیں بنی تھیں اور سرحد میں اے این پی اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے اور 2008 کی وفاقی اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ کے لوگوں کو ملازمتوں میں بے انتہا نوازا اور فنڈز بھی دیے، جس کے نتیجے میں سندھ میں پی پی کی مقبولیت بڑی اور بعد کے تین انتخابات میں پیپلز پارٹی کو جو واضح اور بھرپور اکثریت ملی اتنی کامیابی بے نظیر بھٹو دور میں بھی کبھی نہیں ملی تھی جس کے بعد سے سندھ میں پی پی کو واضح اکثریت ملتی آ رہی ہے، جس کا سہرا بلاشبہ آصف زرداری کے سر جاتا ہے اور پیپلز پارٹی سندھ میں کسی اور کی حمایت کے بغیر حکومت بناتی آ رہی ہے۔

اندرون سندھ کے وہ وڈیرے اور سیاستدان جو دوسری پارٹیوں کے ذریعے منتخب ہوتے تھے وہ زرداری صاحب کی وجہ سے پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور مسلسل برسر اقتدار چلے آ رہے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی 2008 سے ترجیح صرف اندرون سندھ رہا اور شہری علاقے اس کی ترجیح نہیں رہے جہاں پی پی حکومت نے اپنوں کو دل بھر کر نوازا جس کا صلہ اسے بھرپور طور ملتا آ رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پنجاب و کے پی میں غیر مقبولیت کے بعد صدر آصف زرداری کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آیندہ وفاق میں پی پی اقتدار میں نہیں آ سکے گی، اس لیے سندھ پر خصوصی توجہ دی گئی اور سندھ میں پی پی کے مستقل اقتدار کے لیے صدر زرداری نے 18 ویں ترمیم منظور کرائی تھی جس کے نتیجے میں صوبوں کو مزید خود مختاری ملی۔ متعدد محکمے وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوئے اور صوبے مالدار اور مضبوط جب کہ وفاق بے اختیار اور مالی طورکمزور بلکہ صوبوں کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے۔

وفاق کی تین صوبائی حکومتیں حامی اور صرف کے پی حکومت مخالف ہے جو الزام لگا رہی ہے کہ وفاقی رقوم پنجاب کو زیادہ دی جا رہی ہیں اور کے پی کو اس کا حق نہیں دیا جا رہا جب کہ کے پی حکومت اپنے قید بانی کی وجہ سے جان بوجھ کر تعاون نہیں کر رہی اور نئے وزیر اعلیٰ وزیر اعظم کی زیر صدارت کسی اجلاس میں بھی نہیں گئے اور کے پی میں جاری آپریشن کی مخالفت اور دہشت گردوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے جس پر وہاں گورنر راج کی باتیں ہو رہی ہیں جو اب 18 ویں ترمیم کے تحت ممکن نہیں کیونکہ صوبے اب کمزور نہیں اور نہ وہاں اب وفاق من مانی کر سکتا ہے۔

18 ویں ترمیم سے تمام وزرائے اعلیٰ بادشاہ بنے ہوئے ہیں اور آئین کے تحت مقامی حکومتوں کو بااختیار بنا رہے ہیں نہ بلدیاتی اداروں کو فنڈز میں ان کا آئینی حصہ دے رہے ہیں بلکہ انھوں نے صوبائی قوانین کے ذریعے بلدیاتی اداروں کو اپنا محتاج اور بے اختیار بنا رکھا ہے اور وزرائے اعلیٰ اختیارات پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور نیچے منتقل کر کے مقامی حکومتوں کو اختیارات دینے پر تیار ہی نہیں ہیں جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ پہلے وفاق میں بلدیات کا محکمہ ہوتا تھا جو اب نہیں ہے۔

صوبے کے پاس فنڈز کی بہتات ہے اور وفاق کے پاس پہلے کی طرح اختیارات ہیں نہ فنڈز۔ وفاق کے پاس پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس، مہنگی کرنے اور ٹیکسوں میں اضافے کا اختیار ہے جس سے مہنگائی مسلسل بڑھائی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ صاف کہہ چکے ہیں کہ حکومت بے روزگاروں کو ملازمتیں دینے کی پابند نہیں ہے۔ روزگار دینا اور قیمتیں کنٹرول کرنا اب وفاق کا نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔

وفاق اب صوبوں کو ان کے آئینی حقوق دینے کا پابند ہے مگر اب صوبے پہلے کی طرح وفاق کے پابند نہیں ہیں اور من مانیوں میں مکمل آزاد اور خود مختار ہیں جب کہ وفاقی حکومت اب ان پر حکم نہیں چلا سکتی۔ وفاق کی مالی کمزوری دور کرنے کے لیے این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی کے لیے وفاق کوشاں مگر صوبے اپنے فنڈز کم کرانے پر تیار نہیں ہیں۔

وفاقی دفاعی ضروریات کے لیے مطلوبہ فنڈزکے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، نہ ضرورت کے مطابق دفاعی فنڈز بجٹ میں مل رہا ہے جب کہ ملک کو اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن بھارت کا سامنا ہے جس کا دفاعی بجٹ ہم سے دس گنا زیادہ ہے مگر صوبوں کو ملک کے دفاع کی مضبوطی کی فکر نہیں کیونکہ ملکی دفاع وفاق کا کام ہے جس کے پاس دفاعی بجٹ بڑھانے کی رقم نہیں مگر وفاق اپنے اخراجات، غیر ملکی دورے، اپنوں کی مراعات کم نہیں کر رہا۔ غیر ضروری عہدے ختم ہو رہے ہیں نہ وزارتیں کم ہو رہی ہیں۔ وزیر اعظم ارکان اسمبلی، ججز ، بیورو کریٹس و دیگر کی مراعات ضرور بڑھاتے ہیں مگر دفاعی ضروریات پوری نہیں کرا رہے جو ملک کا اولین تقاضا ہے۔

مقبول خبریں