اسرائیل، نئے تنازعات کو بڑھاوا دے رہا ہے

بین الاقوامی قوانین کے تحت صحافیوں اور شہری آبادی کا تحفظ ریاستوں کی بنیادی ذمے داری ہے


ایڈیٹوریل December 30, 2025

پاکستان اور سعودی عرب سمیت 21 اسلامی اور افریقی ممالک نے اسرائیل کی جانب سے صومالی لینڈ خطے کو تسلیم کرنے کے اقدام کو دو ٹوک انداز میں مسترد کردیا جب کہ اس معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے۔

دوسری جانب غزہ میں صحافیوں کے خاندان نشانے پر ہیں، دو سال میں 706 کو شہید کیا گیا، شہدا میں خواتین، بزرگ اور بچے بھی شامل ہیں جب کہ بارش اور سردی نے انسانی بحران کو مزید سنگین بنا دیا۔ شدید بارشوں سے خیمہ بستیاں زیرِ آب، سردی سے بچوں سمیت اموات، جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی خلاف ورزیاں جاری، شہدا کی مجموعی تعداد 71 ہزار سے بڑھ گئی۔ ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ اسرائیل اور امریکا نے دوبارہ ایران پر حملہ کیا تو زیادہ فیصلہ کن جواب دیں گے۔

عالمی سیاست ایک بار پھر ایسے موڑ پرکھڑی دکھائی دیتی ہے جہاں طاقت، مفادات اور جغرافیائی چالوں نے بین الاقوامی قانون، اقوامِ متحدہ کے منشور اور انسانی اقدار کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے صومالی لینڈ جیسے حساس اور متنازع خطے کو تسلیم کرنے کا عندیہ، غزہ میں جاری انسانی المیہ خصوصاً صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو نشانہ بنانے کے الزامات، اور ایران کے خلاف امریکا و اسرائیل کی بڑھتی ہوئی محاذ آرائی دراصل ایک ہی بڑی تصویر کے مختلف مگر جڑے ہوئے رنگ ہیں۔ صومالی لینڈ کا مسئلہ بظاہر ایک علاقائی تنازع دکھائی دیتا ہے، مگر حقیقت میں یہ بین الاقوامی نظام کے بنیادی اصولوں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔

صومالی لینڈ دراصل سابق برطانوی صومالی لینڈ تھا، جو 1960 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد چند ہی دنوں کے لیے ایک آزاد ریاست بنا، پھر اس نے اطالوی صومالی لینڈ کے ساتھ مل کر جمہوریہ صومالیہ تشکیل دی۔ بعد ازاں صومالیہ میں طویل خانہ جنگی، سیاسی بدامنی اور مرکزی حکومت کے خاتمے کے بعد صومالی لینڈ نے 1991 میں یکطرفہ طور پر علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد سے صومالی لینڈ کے پاس اپنی مقامی حکومت، پارلیمان، عدالتی نظام، کرنسی، پولیس اور فوج موجود ہیں اور یہ علاقہ اندرونی طور پر نسبتاً مستحکم بھی رہا ہے، تاہم اقوامِ متحدہ، افریقی یونین اور عالمی برادری کا کوئی بھی ملک اسے باضابطہ آزاد ریاست تسلیم نہیں کرتا۔ تمام بین الاقوامی اداروں کے نزدیک صومالی لینڈ اب بھی صومالیہ کا حصہ ہے۔

اس کی جغرافیائی حیثیت انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ بحیرہ احمر اور خلیجِ عدن کے قریب واقع ہے، جہاں دنیا کی بڑی بحری تجارتی گزرگاہیں موجود ہیں۔ اسی اسٹریٹجک محلِ وقوع کے باعث عالمی طاقتوں اور علاقائی ممالک کی دلچسپی اس خطے میں بڑھتی رہتی ہے۔ صومالیہ کی وحدت اور علاقائی سالمیت کو اقوامِ متحدہ سمیت پوری عالمی برادری تسلیم کرتی آئی ہے۔ ایسے میں کسی بھی ریاست کی جانب سے صومالی لینڈ کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنا نہ صرف یو این چارٹر کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک خطرناک مثال بھی قائم کرتا ہے، جس کے اثرات افریقہ کے دیگر کمزور اور نسلی تقسیم کا شکار ممالک تک پھیل سکتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل نے ہمیشہ طاقت کے بل پر حقائق تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے، چاہے وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بستیوں کی تعمیر ہو یا اب افریقہ کے حساس خطوں میں مداخلت۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اس معاملے پر امریکا کا ردعمل غیر معمولی حد تک محتاط نظر آتا ہے۔ تاہم امریکی صدر کا طنزیہ انداز میں یہ کہنا کہ کیا واقعی کوئی جانتا بھی ہے کہ صومالی لینڈ کیا ہے، اس بات کی علامت ہے کہ واشنگٹن خود بھی اس معاملے کی نزاکت اور اس کے ممکنہ نتائج سے پوری طرح آگاہ ہے۔

اس کے باوجود عالمِ اسلام کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ امریکی پالیسی اکثر وقتی بیانات کے پیچھے چھپے طویل المدتی مفادات پر مبنی ہوتی ہے، اور ماضی میں کئی بار’’ فی الحال‘‘ کہہ کر بعد ازاں مکمل حمایت فراہم کی جا چکی ہے۔دوسری جانب غزہ کی صورتحال نے انسانی ضمیر کو ایک بار پھر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ فلسطینی جرنلسٹس سنڈیکیٹ کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں 706 صحافیوں کے اہلِ خانہ کو شہید کیا جانا کسی بھی مہذب دنیا کے لیے ناقابلِ قبول ہونا چاہیے۔ شہدا میں خواتین، بزرگ اور بچوں کی موجودگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ محض ضمنی نقصان نہیں بلکہ ایک منظم پالیسی کا حصہ ہے، جس کا مقصد صحافیوں کو خاموش کرانا اور سچ کی آواز کو دبانا ہے۔

 بین الاقوامی قوانین کے تحت صحافیوں اور شہری آبادی کا تحفظ ریاستوں کی بنیادی ذمے داری ہے، مگر غزہ میں یہ قوانین مسلسل پامال ہو رہے ہیں۔ جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی خلاف ورزیاں جاری ہیں اور شہدا کی مجموعی تعداد اکہتر ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شدید بارشوں، سردی اور تیز ہواؤں نے بے گھر فلسطینیوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ خیمہ بستیاں زیرِ آب آنا، بنیادی سہولیات کا فقدان اور سردی سے بچوں سمیت اموات اس بات کا ثبوت ہیں کہ غزہ کا انسانی بحران اب محض جنگی کارروائیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ قدرتی آفات نے بھی اسے ایک نئے اور زیادہ سنگین مرحلے میں داخل کر دیا ہے۔ ایران کے صدر مسعود پزشکیان کا حالیہ بیان خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی سنگینی کو مزید واضح کرتا ہے۔

ان کا کہنا کہ اگر اسرائیل اور امریکا نے دوبارہ ایران پر حملہ کیا تو اس سے کہیں زیادہ فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، دراصل ایک واضح انتباہ ہے۔ انھوں نے جس طرح امریکا، اسرائیل اور یورپ پر ایران کے خلاف مکمل جنگ لڑنے کا الزام لگایا اور اس جنگ کو عراق کے ساتھ لڑی گئی جنگ سے بھی زیادہ پیچیدہ قرار دیا، وہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر بڑے تصادم کے دہانے پر کھڑا ہے۔

یہ تمام واقعات محض اتفاق نہیں بلکہ ایک وسیع تر جغرافیائی اور سیاسی تناظر کا حصہ ہیں۔ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیاں، فلسطینیوں کے خلاف مسلسل مظالم، افریقی خطوں میں نئے تنازعات کو ہوا دینے کی کوششیں اور ایران کے گرد بڑھتا ہوا دباؤ ایک ایسے عالمی نظام کی عکاسی کرتے ہیں جہاں طاقت قانون پر حاوی ہو چکی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اکثر یا تو بے بس نظر آتے ہیں یا پھر طاقتور ممالک کے مفادات کے سامنے خاموشی اختیارکر لیتے ہیں۔ سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جانا بلاشبہ ایک مثبت قدم ہے، مگر ماضی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ محض اجلاس اور بیانات زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کرتے۔

پاکستان اور سعودی عرب جیسے ممالک کا کردار اس مرحلے پر انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ جاری کرنا اپنی جگہ ایک مضبوط سفارتی قدم ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ عالمی فورمز پر مسلسل آواز اٹھانا، بین الاقوامی عدالتوں سے رجوع کرنا، اور سفارتی و اقتصادی دباؤ کے امکانات کو بروئے کار لانا وہ اقدامات ہیں جن کے بغیر محض بیانات کی حیثیت محدود رہ جاتی ہے۔ عالمِ اسلام کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ اگر وہ اجتماعی طور پر متحد نہ ہوا تو ہر ملک باری باری دباؤ کا شکار ہوتا رہے گا۔افریقی ممالک کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے۔ صومالی لینڈ جیسے معاملات میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت دراصل پورے براعظم کے لیے ایک خطرناک مثال بن سکتی ہے۔

افریقہ پہلے ہی نسلی، قبائلی اور سیاسی تقسیم کا شکار ہے، اور اگر علاقائی سالمیت کے اصول کو کمزور کیا گیا تو اس کے نتائج نہایت سنگین ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے اسلامی اور افریقی ممالک کا مشترکہ موقف نہ صرف صومالیہ کے لیے بلکہ پورے خطے کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔آج کی دنیا میں اطلاعات کی جنگ کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جو بیانیہ غالب آ جاتا ہے، وہی سچ تصور کیا جاتا ہے۔ غزہ میں صحافیوں کو نشانہ بنانا دراصل اسی بیانیے کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہے۔ اگر سچ سامنے نہ آئے تو مظالم معمول بن جاتے ہیں اور دنیا بے حس ہو جاتی ہے۔ اس لیے عالمی صحافتی تنظیموں، انسانی حقوق کے اداروں اور آزاد ریاستوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس معاملے پر محض تشویش کا اظہار نہ کریں بلکہ عملی اقدامات کریں۔

آخرکار یہ سوال پوری شدت سے ابھرتا ہے کہ کیا موجودہ عالمی نظام واقعی انصاف پر مبنی ہے یا پھر یہ طاقت کے قانون کے تحت چل رہا ہے؟ صومالی لینڈ کا معاملہ ہو، غزہ کا انسانی بحران ہو یا ایران کے خلاف بڑھتی ہوئی محاذ آرائی، ہر جگہ یہی تاثر ملتا ہے کہ قانون اور اصول کمزور جب کہ طاقتور فریق مضبوط ہے۔ اگر عالمی برادری نے اب بھی خاموشی اختیار کیے رکھی تو نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ افریقہ اور دیگر خطے بھی عدم استحکام کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں، جس کے اثرات پوری دنیا کو بھگتنا ہوں گے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ عالمی ضمیر جاگے، اقوامِ متحدہ اپنے منشور کے مطابق فعال کردار ادا کرے اور انصاف، خود مختاری اور انسانی حقوق کو محض نعروں کے بجائے عملی پالیسی کا حصہ بنایا جائے۔ تاریخ یہ سبق بار بار دیتی ہے کہ ناانصافی اور جبر وقتی طور پر طاقتور کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں، مگر وہ کبھی بھی دیرپا امن کی بنیاد نہیں بن سکتے، اگر آج دنیا نے درست سمت کا انتخاب نہ کیا تو آنے والی نسلیں ایک اور تباہ کن دور کی گواہ ہوں گی، جس کی ذمے داری تاریخ انھی طاقتوں پر عائد کرے گی جو آج خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

مقبول خبریں