نسخے ، ٹوٹکے اوربھنی ہوئی مرغی

 غم اگرچہ جاں گسل ہے یہ کہاں بچیں کہ دل ہے غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا


سعد اللہ جان برق December 30, 2025
[email protected]

ہمارے معاشرے میں جو سب سے اچھی بات ہے وہ دوسروں کے غم میں ’’دبلا‘‘ ہونے کی عادت ہے ،ہرکسی کو فکر ہے کہ دوسروں کو سیدھی راہ دکھائے ، اچھے اچھے راستوں پرچلائے ،ان کی عاقبت سنواریں اور یہ جذبہ اتنا زیادہ ہے کہ ’’خود‘‘ کو بھی بھول جاتے ہیں، مطلب یہ کہ خود غرض بالکل بھی نہیں ہیں نیکی کے معاملے میں بھی پہلے آپ ، پہلے آپ کے اصول پر کاربند ہیں ، دینی معاملات میں تو ایسا ہے ہی اوربہت وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے لیکن کچھ اور معاملے میں بھی یہ رحجان بہت زیادہ ہے ۔

اگر آپ بیمار پڑ جائیں تو جو لوگ عیادت کو آتے ہیں، ہر ایک کے پاس ایک یاکئی تیر بہدف نسخے ہوتے ہیں جومریض کو بتانا ضروری سمجھاجاتا ہے، مطلب کہ ماشاء اللہ ہمارے ہاں ہرکوئی ڈاکٹر،  طبیب اورحکیم بلکہ لقمان حکیم موجود ہے اورہرکسی کے پاس بے شمار تیر بہدف نسخے بھی موجود ہوتے ہیں اوریہ نسخے دوسروں کو بتانا انتہائی فرض سمجھا جاتا ہے، یہ سلسلہ اتنا مستقل ہے کہ ہم جب بھی بیمار ہوتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کو پتہ نہ چلے ورنہ نسخے مار مار کر ہمارا کباڑا کردیں گے کہ ہمارا کچومر بنادیں گے ، چنانچہ ہم بیماری کو ایک جرم کی طرح چھپاتے ہیں۔

ایک مرتبہ ہم نے موٹر سائیکل کا ایکسیڈنٹ کیا، بستر پکڑنا ضروری تھا ، اس لیے ایک کمرے میں روپوش ہوگئے ، گھر والوں کو سمجھایا کہ کوئی پوچھے تو دانت درد کا بتاؤ، ایک دانت درد ہی ایسی بیماری ہے جس کی عیادت کو لوگ نہیں آتے یا کم آتے ہیں۔ عوامی سطح پر تو یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا ، چل رہا ہے اورچلتا رہے گا لیکن جب سے یہ نئی مصیبت انٹرنیٹ کے نام سے ہم پر نازل ہوئی ہے ،نہ جانے کس گناہ کی پاداش ہے؟ اس پر یہ دوائیں اورنسخے بتانے کا رحجان چل پڑا ہے ، ہرکوئی کسی نہ کسی چیز کے طبی فوائد لوگوں میں مشتہرکررہا ہے ۔ اکثر تو طب نبوی کا تڑکا بھی لگا دیتے ہیں،پڑوسی ملک میں یہ کام ’’ایورویدک‘‘ سے لیاجاتا ہے ، کوار گندل یا ایلوویرا ، تلسی ، کریلے ، پیاز، مولی لہسن، کدو اورکھیرے وغیرہ میں اتنی خوبیاں دریافت کرلی گئی ہیں کہ کوئی ایک استعمال کرو تو سارے امراض سے محفوظ ہوجاؤ ، تقریباً ان چیزوں کو امرت اورآب حیات کے برابر بتایا جاتا ہے ۔

ایک مرتبہ ہم بیمارہوگئے، زکام بگڑ گیا تو پھیپھڑوںمیں انفیکشن ہوگیا پھر کھانسی وغیرہ ، چنانچہ دفتر سے چھٹی لی گھر میں عزیزوں اوردوستوں کے نسخوں سے تنگ آکر ہم نے باہر ڈیرے میں ڈیرہ جمالیا تو گویا بارش سے بھاگ کر پرنالے کے نیچے بیٹھ گئے ، ہرآتا جاتا مڑکر آتا اورعیادت کے بہانے دو چارنسخے مارنے لگتا، میں نے خود کو وہ طوطا محسوس کیا جو کوؤں میں گھر گیا ہو اورہرکوا آکر اس کے سر پر دوچار ٹھونگے مارتا ہو۔مسجد چلا جاتا تو وہاں دوچار بزرگ تاک میں بیٹھے ہوتے جیسے ہی نماز سے فارغ ہوتے، نسخے برسنے لگتے، یہاں نسخوں میں کچھ دعائیں اور وظائف بھی شامل ہوگئے ،بہت سے ورود کو بطورنسخہ بتایا جانے لگا ، غرض گھر میں، نہ ڈیرے میں، نہ راستوں میں، کہیں بھی جائے امان نہیں تھی، ہم نے بہتری اسی میں جانی کہ دفتر جانا  شروع کردیں حالانکہ ابھی کافی نقاہت تھی ، پہلے تو دفتر کے ساتھیوں، کاتبوں اورصحافیوں نے نسخوں کی یلغار کی، پھر اخبار سے تعلق رکھنے والے لیڈروں اور سماجی کارکنوں کے ہتھے چڑھ گئے ، جو بھی آتا چھٹی کی وجہ معلوم کرتا اورپھر اپنا بقچہ کھول دیتا ۔ہم نے اخباروں کے بارے میں تو بتایا نہیں کہ اس میں نیم حکیم لوگ کیا مضامین الامراض والعلاج کے نام سے چھپواتے ہیں ۔

 مولی کے فوائد ، پیاز کے کرشمے ، لہسن کی کرامتیں ، ہلدی میں شفا ، مطلب یہ کہ ہرسبزی پھل پھول کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دی جاتی ہے ، مزید اہم ثابت کرنے کے لیے طب نبوی کا ٹچ بھی دیاجاتا ہے ، کس نے تاریخی حوالوں کی طرح پتہ لگایا ہے کہ طب نبوی میں اس چیز کا ذکر ہے یا نہیں ۔ اوراب پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا نے تو اس کاروبار میں اورچاند بھی لگا لیے کہ اکثر نسخوں کے ساتھ پورے امریکا اور چین و جاپان کے اداروں کے حوالے بھی ہوتے ہیں ، پنسلوانیا یونی ورسٹی ، بال پن والی یونی ورسٹی کی تحقیق یا انکشاف یاکسی تحقیقی پراجیکٹ کا حوالہ ، کہ کتے کی دم میں اتنے فوائد ہیں کہ ان فوائد کی وجہ سے کتے کی دم سیدھی نہیں ہوپارہی ہے ، گدھے کی سینگیں، بھینس کا گوبر اورگائے کا پیشاب ان فوائد سے مالامال ہے ۔انٹرنیٹ کے عظیم الشان فوائد سے تو اس طرح بچ سکتے ہیں کہ اسے منہ ہی نہ لگائیں لیکن اس بڑے میاں کا یہ جو چھوٹا میاں موبائل ہمیں لاحق ہوگیا ہے اس سے کہاں بچیں۔

 غم اگرچہ جاں گسل ہے یہ کہاں بچیں کہ دل ہے

غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا

 ان دنوں ہمیں ایک ایسا مہربان لاحق ہے کہ جو صبح کی نماز پڑھ کر کوئی نہ کوئی نسخہ میسج کردیاکرتے ہیں ، اب ہماری مجبوری یہ ہے کہ میرا وسیع حلقہ احباب تو ہے ،ذرا صبر کرے ، میسج کھول لیتے ہیں اورپھر ’’سفر جل ‘‘ اورکلونجی کو ملا کر کھانے سے دماغ کی اسپیڈ دگنی ہوجاتی ہے ، اناردانہ بہی دانہ اورمیھتی دانہ تینوں پیس کر شہد میں ملا کر کھائیے اورشوگر سے نجات پائیے ، انجیر انگور اورانار کالے یرقان کے لیے تیر بہدف ہے ، کینسر سے مکمل نجات کے لیے کھجور کی گٹھلیاں پیس کر کھائیے ، ہمارے ایک عزیز کو اس قسم کے نسخے استعمال کرنے کا شوق ہے بلکہ جنون ہے، وہ ہرروز کوئی نہ کوئی چیز ہم سے منگواتا ہے کیوں ہم روزانہ شہر جاتے ہیں ، اب تک وہ تل، میتھی دانہ ،کریلے کا سفوف ، اجوائن ، سونف ، ہینگ، ہلدی ،دارچینی ، زیرہ املتاس ،آملے اورنہ جانے کیا کیا ہم سے منگوا چکا ہے ۔

ایک دن ہم کوئی چیز لاکر اسے پہنچانے گئے تو کمرے میں داخل ہوتے ہی خوشبوؤں کی یلغار ہوگئی جو مر غ یا مرغی بھوننے کا پتہ دے رہی تھیں۔ ہم بھی شہر سے سیدھے آئے تھے اس لیے دل میں لڈو پھوٹنے لگے کہ شاید صحیح موقع پر آئے ، چائے کا وقت بھی تھا ، اس لیے یقینی تھا کہ چائے یعنی مرغی کا چانس ہے، اس لیے چائے کی دعوت حسب معمول انکار کرنے کے برخلاف بیٹھ گئے ۔

محترمہ تھوڑی دیر بعد چائے لائی تو ہم میز پر رکھے ہوئے ٹرے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگے لیکن ٹرے میں صرف چائے کی پیالیاں تھیں، ہماری آنکھوں کی بھوک کو محسوس کرکے محترمہ نے کہا ، بسکٹ لاؤں ، عرض کیا ہمیں میٹھی چیزیں پسند نہیں ، محترمہ چلی گئی لیکن ہماری توقع دم توڑ گئی، واپس آئی ہی نہیں، اس عرصہ میں ہم نے دیکھا کہ محترم نے چارپائی کے نیچے سے ایک چھوٹا سا کھرل نکالا اورچارپائی کے نیچے پڑی ہوئی ڈبیوں سے کچھ نکال کر کوٹا اورچائے کی پیالی میں ڈال دیا ۔ تب ہم پر انکشاف ہوا کہ کوئی مرغا مرغی نہیں بھنی تھی اوریہ خوشبو ان ڈبوں سے نشر ہورہی تھی جو چارپائی کے نیچے پڑے تھے اورماحول کو معطر کر رہے تھے ۔

مقبول خبریں