مفاہمت کی سیاست کا مستقبل

مفاہمت کے امکانات کے حوالے سے پہلو بھی مد نظر رہے کہ بانی پی ٹی آئی اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی جارحانہ بیان بازی جاری ہے


سلمان عابد December 30, 2025

بنیادی طور پر یہ اعتراف پاکستان کی حکومتی اشرافیہ یا طاقت ور طبقات میں موجود ہے کہ پاکستان کا سیاسی عدم استحکام ہماری مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہا ہے ۔یہ جو سیاسی منطق دی جارہی تھی کہ ملک سیاسی اور معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے اور جو لوگ بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام کی دہائی دے رہے ہیں وہ کسی سازش کے کھیل کا حصہ ہیں ،غلط ثابت ہوا ہے ۔اسی وجہ سے اب حکمران طبقات کی جانب سے مختلف نوعیت پر مبنی سیاسی مفاہمت پر زوردیا جارہا ہے اور ان کے بقول ملک کا سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی کا مستقبل مفاہمت یا سیاسی ڈائیلاگ یا اتفاق رائے کی سیاست کے بغیر ممکن نہیں۔اسی وجہ سے ایک طرف وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے سیاسی مخالفین کو بات چیت کا مشورہ یا مفاہمت کا عندیہ دیا ہے۔

اسی طرح خواجہ رفیق فاونڈیشن کے زیر اہتمام تقریب میں حکومتی وزیر اور مسلم لیگ ن کے اہم راہنماؤں سمیت میڈیا کے بڑے ناموں نے حکومت اور حزب اختلاف کو مشورہ دیا ہے کہ محاذ آرائی، ٹکراؤ،دشمنی اور تناؤ کی سیاست کو ختم کرکے مفاہمت کی سیاست کے امکانات کو آگے بڑھائیں وگرنہ یہ لڑائی کا کھیل سب کو بہا لے جائے گا۔دوسری طرف پی ٹی آئی کے سابق اہم راہنماؤں جن میں فواد چوہدری ،عمران اسماعیل اور مولوی محمود نے بھی ایک مفاہمتی فارمولا کے تحت پی ٹی آئی ،اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت کے درمیان جاری ٹکراؤ کے خاتمہ میں خود کو پیش کیا ہے اور ان کی طرف سے ایک تحریری خط وزیر اعظم کولکھا گیا ہے کہ وہ مفاہمت کی طرف آگے بڑھیں اور جذبہ خیر سگالی کی بنیاد پر کوٹ لکھپت جیل میں قید شاہ محمود قریشی ،ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید ، اعجاز چوہدری اور عمرسرفراز چیمہ کو پے رول پر رہا کریں تاکہ سیاسی لوگ مل جل کر بات چیت کا راستہ نکال سکیں۔خود تحفظ آئین پاکستان کی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں حکومت سے بات چیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ان کی جانب سے پانچ نکاتی بات چیت کا ایجنڈا بھی سامنے آیا ہے ۔

ان نکات میں نو مئی اور 25نومبر کے واقعات کی شفاف عدالتی تحقیقات، 8فروری کے انتخابات کا سیاسی اور قانونی آڈٹ،بانی پی ٹی آئی سمیت تمام گرفتار راہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ اور دہشت گردی کی بنیاد پر جو بھی مقدمات ہیں ان کا خاتمہ اور شفاف عدالتی ٹرائل اور 26ویں اور 27ویں ترمیم پر تحفظات،نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سمیت ملکی سطح پر نئے انتخابات کا مطالبہ شامل ہے۔جب کہ اس کے برعکس ابھی تک حکومت کی جانب سے مذاکرات اور مفاہمت کی باتیں تو ہورہی ہیں مگر مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا اس پر کوئی نکات واضح نہیں اور نہ ہی حکومت پی ٹی آئی کے پیش کردہ نکات پر بات چیت یا اس پر عملدرآمد کو اپنا ایجنڈا بنانا چاہتی ہے ۔

اگرچہ حکومت مفاہمت کی سیاست میں ناکامی کی ساری ذمے داری بانی پی ٹی آئی ،وزیر اعلی خیبرپختونخوا سہیل آفریدی سمیت سخت مزاج یا مزاحمت کاروں کو قرار دیتی ہے جو مفاہمت سے زیادہ محاذآرائی یا ٹکراؤ کی بنیاد پر مزاحمت کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔حکومت کے بقول یہ گروہ عملا اسلام آباد کی طرف سیاسی چڑھائی کا ارادہ رکھتا ہے اور ان کی موجودگی میں مفاہمت ممکن نہیں ۔اسی بنیاد پر مائنس ون یعنی بانی کے ہی بغیر مذاکرات یا مفاہمت کی بات کی جاتی ہے اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کرکے کوئی دھڑا بن جائے تو اس کے ساتھ بات چیت ممکن ہوسکتی ہے ۔

مفاہمت کے امکانات کے حوالے سے پہلو بھی مد نظر رہے کہ بانی پی ٹی آئی اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی جارحانہ بیان بازی جاری ہے ،جسے سمجھا جارہا ہے کہ اس کا فائدہ بھارت اور افغانستان کو ہو رہا ہے ، اسی بنا پر انھیں سیکیورٹی رسک بھی سمجھا جاتا ہے۔ ادھر بانی پی ٹی آئی ،ان کی اہلیہ بشری بی بی سمیت ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید،اعجاز چوہدری اور عمرسرفراز چیمہ سمیت کئی کارکنوں اور اہم راہنماؤں کو انسداد دہشت گردی کی جانب سے تیس تیس برس یا دس دس برس سزائیں یا بھاری جرمانہ کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں، سہیل آفریدی سمیت ان کی بہنوں سے بانی پی ٹی آئی کی ملاقات کا نہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ان حالات میں یا بانی پی ٹی آئی کو باہر نکال کر یا مائنس کرکے مفاہمت کی بات چیت کی منطق ممکن نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکل سکے گا۔ماضی میں بھی مائنس کا کھیل جو کھیلا گیا وہ کارگر ثابت نہیں ہوسکا تھا۔اسی طرح بانی پی ٹی آئی کے سخت بیانات اور بالخصوص افراد یا اداروں کو براہ راست نشانہ بنانا یا ان پر سخت لفظوں کا استعمال نے بھی کشیدگی میں اضافہ کیا ہے ۔ فریقین ایک طرف سیاسی مفاہمت کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال کررہے ہیں تو پھر مفاہمت کا کھیل ہر محاذ پر پیچھے رہ جاتا ہے ۔

ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت یا اسٹیبلیشمنٹ کو بانی پی ٹی آئی یا ان کی پارٹی قیادت کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت نظر نہیں آتی ۔اسی بنیاد پر مفاہمت کے لیے جو سازگار حالات حکومت کو پیدا کرنے ہوتے ہیں اس کے لیے حکومت کا کوئی عملی اقدام نظر نہیں آتا۔بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کا سخت طرز عمل اور براہ راست حکومت کی ساکھ کو تسلیم نہ کرکے ان سے مذاکرات سے انکار اور اسٹیبلیشمنٹ ہی سے بات چیت پر زور نے بھی بہت سے معاملات میں خرابیاں پیدا کی ہیں ۔حکومت کی غلطی یہ ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کو علیحدہ طور پر دیکھنے کی کوشش کررہی ہے جو ان کی ناکامی سمیت پی ٹی آئی یا بانی پی ٹی آئی مخالف بیانیہ کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔اصولی طور پر تو دونوں فریقوں کی جانب سے ٹکراؤ کی بجائے ایک دوسرے کی قبولیت ،تحمل،برداشت، بردباری اور مفاہمت کے لیے درمیانی راستہ نکالنے کو ہی ترجیحی ایجنڈا بنانا چاہیے تھا ۔ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم نہ کرنے کی سیاست کسی بھی طور پر ریاست اور ملک کے مفاد میں نہیں ۔

جہاں تک حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ شاہ محمود قریشی سمیت دیگر پی ٹی آئی راہنماؤں کی سرپرستی کرکے بانی پی ٹی آئی کی اہمیت یا ا ن کی پارٹی کی سطح پر قبولیت کو ناکام بناسکتی ہے تو ایسے ممکن نہیں ۔کیونکہ پی ٹی آئی کے لوگ جو اس وقت جیلوں میں ہیں وہ استحکام پاکستان پارٹی ، پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین یا پرویز خٹک سمیت دیگر باغی افراد کو دیکھ چکے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی اور بانی کے بغیر کہاں کھڑے ہیں۔ اب تو حالت یہ ہے کہ جو لوگ پی ٹی آئی چھوڑ گئے تھے یا ان کو چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا تھا وہ بدستور پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں اور اپنا مستقبل بھی وہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں ۔فواد چوہدری نے درست بات کی ہے کہ مائنس بانی پی ٹی آئی کسی بھی صورت ممکن نہیں اور جو لوگ ایسی سوچ رکھتے ہیں وہ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو سمجھنے میں ناکام ہیں کیونکہ پی ٹی آئی نام ہی بانی کا ہے اور جو بھی ان کو نظراندازکرنا چاہتا ہے اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

اسی طرح جو لوگ بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی پر پابندی کو یا خیبر پختونخوا میں گورنر راج کو ہی مسائل کا حل سمجھتے ہیں وہ بھی ہماری سیاسی تاریخ سے کم واقفیت رکھتے ہیں ۔ضرورت تو اس امرکی ہے کہ حکومت ،حزب اختلاف سمیت سب سیاسی جماعتیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر حقیقی مفاہمت کا راستہ اختیار کریں اور اس عمل میں مفاہمت اور ڈکٹیشن کے کھیل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر کوئی فریق یہ سمجھتا ہے کہ ہم ڈکٹیشن کی بنیاد پر اپنا اپنا ایجنڈا ایک دوسرے پر مسلط کرسکتے ہیں تو اسے اس غلطی سے باہر نکلنا ہوگا۔کیونکہ بعض اوقات ایسے محسوس ہوتا ہے کہ خود حکومت اپنی سیاسی حکمت عملیوں میں موجود سیاسی ،انتظامی اور قانونی غلطیوں سے بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت میں بدستور اضافہ کررہی ہے اور بانی پی ٹی آئی مخالف بیانیہ میں ناکامی نے حکومت کو تنہا کردیا ہے ۔اس لیے فی الحال سیاست میں مفاہمت کے امکانات بہت کمزور ہیں اور ہم نئے برس2026ء میں بھی ایک بڑے سیاسی ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہے ہیں جو ملک کے سیاسی ،جمہوری،آئینی ،قانونی، سیکیورٹی سمیت گورننس کی سطح پر بھی بہت سی خرابیوں کو جنم دے گا۔

مقبول خبریں