امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات پسِ پردہ خاصے بہتر ہوچکے ہیں اور وہ جلد ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہو جائے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ بات انھوں نے اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے ساتھ فلوریڈا میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہی۔
صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ابراہیمی معاہدے نسبتاً تیزی سے مزید توسیع پائیں گے اور سعودی عرب کی شمولیت بھی بس کچھ وقت کی بات ہے۔
انھوں نے زور دیکر کہا کہ جہاں تک میرا تعلق ہے، سعودی عرب نے وہ سب کچھ کیا ہے جس کی ہم توقع کرسکتے ہیں۔ وہ اسرائیل کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے معاملات چلا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ صدر ٹرمپ کے اس دعوے کے باوجود سعودی عرب نے ہمیشہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے متعلق محتاط بلکہ واضح طور پر انکاری مؤقف اپنایا ہے۔
حال ہی میں سابق سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے اسرائیلی میڈیا کو انٹرویو میں دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ سفارتی تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آسکتے جب تک اسرائیل ایک نارمل ریاست کی طرح کا رویہ اختیار نہیں کرتا اور فلسطین کو آزاد و خودمختار ریاست تسلیم نہیں کرتا۔
یاد رہے کہ سعودی عرب کی ہمیشہ سے یہی پالیسی رہی ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کا انحصار ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر ہے۔
تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سیکیورٹی، انٹیلی جنس اور علاقائی امور پر غیر اعلانیہ تعاون موجود ہے، خاص طور پر ایران کے اثر و رسوخ کے تناظر میں۔
ابراہیمی معاہدے: مختصر تاریخ
ابراہیمی معاہدے 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں طے پائے، جن کا مقصد اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا تھا۔
سب سے پہلے ستمبر 2020 متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔
جس کے بعد اکتوبر 2020 میں سوڈان نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا اعلان کیا اور دسمبر 2020 میں مراکش بھی اس معاہدے میں شامل ہوگیا۔
اسرائیل اور عرب ممالک ان معاہدوں کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں سفارتی، تجارتی، سیاحتی اور سیکیورٹی تعاون میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
صدر ٹرمپ کی اپنے پہلے دور میں بھی کوشش رہی تھی کہ ابراہیمی معاہدوں میں سعودی عرب کو بھی شامل کیا جائے اور اب دوسرے دور میں بھی یہ خواہش ہے۔
اسی تناظر میں صدر ٹرمپ متعدد بار یہ اعلانات کرچکے ہیں کہ سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرکے ابراہیمی معاہدے میں جلد ہی شامل ہونے والا ہے تاہم یہ جلد اب تک نہیں آئی ہے۔