میں یہ سطریں لکھتے ہوئے جانتی ہوں کہ مجھ پر یہ اعتراض ضرور کیا جائے گا کہ میں ماضی کو رومانوی بنا کر پیش کر رہی ہوں کہ میں ایک ایسے افغانستان کا ذکر کر رہی ہوں، جو اب شاید صرف یادوں، بلیک اینڈ وائٹ تصویروں اور چند شکستہ دلوں میں زندہ ہے۔ مگر میرا سوال آج بھی وہی ہے جو برسوں پہلے تھا۔ کیا افغانستان واقعی ہمیشہ ایسا ہی تھا، جیسا آج ہمیں دکھایا جاتا ہے؟ یا پھر یہ وہ چہرہ ہے جو اسے طاقت، جنگ اور مفاد کی سیاست نے بنا دیا۔
میں افغانستان کو صرف بندوق اور خوف کے استعارے کے طور پر قبول کرنے سے انکار کرتی ہوں۔ میں نے کابل کو صرف ملبے اور لاشوں کے فریم میں نہیں دیکھا۔ مجھے وہ افغانستان یاد ہے جہاں یونیورسٹیوں میں لڑکیاں سوال کرتی تھیں، جہاں عورت کا وجود کسی فتوے کا محتاج نہیں تھا، جہاں زندگی پر پہرا نہیں تھا بلکہ زندگی لوگوں کی آنکھوں میں جھلکتی تھی۔
آج کا افغانستان بہت مختلف ہے۔ سوال یہی ہے کہ ایک ملک جو زندگی سے لبریز تھا، وہ اندھیروں میں کیسے ڈوب گیا۔
افغانستان کی تباہی کسی ایک دن، کسی ایک نظریے یا کسی ایک گروہ کی پیداوار نہیں۔ یہ ایک طویل کہانی ہے جس میں عالمی طاقتوں کی شطرنج بچھی، مہرے بدلے اور قربانی ہمیشہ افغان عوام نے دی۔ سوویت یونین آیا تو افغانستان سرد جنگ کا میدان بنا، امریکا آیا تو یہ جہاد کی منڈی بن گیا اور جب دونوں چلے گئے تو پیچھے صرف راکھ، یتیم بچے اور بربادی رہ گئی۔ طالبان کوئی اچانک نازل ہونے والی آفت نہیں تھے، وہ ایک پورے سیاسی اور عسکری منصوبے کا نتیجہ تھے، ایسا منصوبہ جس میں مذہب کو ہتھیار اور نوجوانوں کو ایندھن بنایا گیا۔
افغان عورت نے اس سب میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا۔ اس پر ہر دور میں حکومت کی گئی، کبھی بندوق سے، کبھی نظریے کے زور پہ ،کبھی روایت کے نام پر۔ اس سے پہلے اس کی تعلیم چھینی گئی، پھر اس کی آواز اور اب اس کی یاد داشت تک مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اور آج جب ہم سمجھتے تھے کہ شاید بدترین وقت گزر چکا ہے تو ایک نیا دکھ ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ وہ افغان مہاجرین جو دہائیوں پہلے پاکستان آئے تھے، آج انھیں واپس بھیجا جارہا، مگر اس بار یہ واپسی پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے یہاں اپنے گھر بنائے، ان کے بچے یہاں پیدا ہوئے اور بڑے ہوئے، اپنے پیاروں کی قبریں بنائیں، کاروبار کیے، خواب دیکھے۔ متعدد نے تو چالیس سے پینتالیس برس سے اپنی پوری زندگی یہاں گزاری اور اب واپشی کا سفر ہے ۔میں سوچتی ہوں وہ واپس جا کر کیا کریں گے؟ کس گھر میں جائیں گے؟ کس زمین کو اپنا کہیں گے؟کون سی یاد ان کی منتظر ہوگی؟ وہ بچے جو پاکستان میں پیدا ہوئے جنھوں نے افغانستان صرف اپنے والدین کی کہانیوں میں سنا، وہ کس ملک میں لوٹ رہے ہیں، وہ بوڑھی عورتیں جن کی جوانی مہاجر کیمپوں میں گزر گئی، اب کس امید پر واپس جائیں گی؟ یہ واپسی نہیں یہ ایک اور بے وطنی ہے، ایک ایسی بے وطنی جس میں نہ ماضی ساتھ ہے، نہ مستقبل واضح ہے۔
یہ کیسا المیہ ہے کہ جس سرزمین پر انھوں نے کامکیا، اپنے پسینے سے اپنی اینٹیں مضبوط کیں، آج وہی سرزمین ان سے کہہ رہی ہے کہ تم بوجھ ہو۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ریاستوں کے مسائل نہیں ہوتے مگر میں یہ ضرور کہتی ہوں کہ مسائل کا حل انسان کو روند کر نہیں نکالا جاتا۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ترک وطن کوئی شوق میں نہیں کرتا، یہ ایک مجبوری ہوتی ہے اور واپسی اس سے بھی بڑی مجبوری۔
اصل سوال یہ نہیں کہ افغانستان کہاں غلط تھا؟ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کہاں خاموش رہے؟ ہم نے کب انسان کو نظریے پر قربان کرنا سیکھ لیا، کب ہم نے سرحد کو انسان سے بڑا مان لیا؟مجھے معلوم ہے یہ تحریر کسی کو سخت لگے گی، مگر میں نے ہمیشہ یہی مانا ہے کہ لکھنے کا کام تسلی دینا نہیں سوال اٹھانا ہے۔ افغانستان ایک سوال ہے اور افغان مہاجرین اس سوال کا سب سے کربناک جواب۔
مجھے اپنا ناول نہ جنوں رہا نہ پری رہی یاد آیا، وہ میں نے برصغیر کے بٹوارے کے پس منظر میں لکھا تھا اور جس کرب سے اس وقت لوگ گزرے تھے، آج پاکستانی افغان ان ہی حالات اور کرب سے گزر رہا ہے۔ جنگ ختم ہوجاتی ہے مگر اس کا شکار ہونے والے عوام برسوں بلکہ کئی نسلوں تک اس دکھ اور کرب کے ساتھ زندگی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جنگ کے دیے گھاؤ بھر نہیں پاتے وہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جنگ سے اگر گھر کے گھر برباد ہوتے ہیں تو کہیں کوئی جنگ سے فائدہ بھی اٹھا رہا ہوتا ہے، اس ہی لیے نہ تو جنگ کو اور نہ اسلحہ کے کاروبار کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں اس میں ہمارے ارد گرد بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے، جو نہیں ہونا چاہیے اور اگر ہم اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتے، تو کم از کم آواز تو اٹھا ہی سکتے ہیں۔
ہمارے اردگرد جو کچھ ہورہا ہے، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ دنیا کے لیے جو خواب ہم نے دیکھے تھے وہ پورے نہ ہوئے مگر خواب دیکھنا تو چھوڑا نہیں جاسکتا۔ ہم نے ساری عمر خواب دیکھے ایک بہتر کل کے ایک بہتر دنیا کے۔ آنے والا کل آج سے بہتر ہوگا یہ وہ امید ہے جو ہمیں زندہ رکھتی ہے اور ہم اس سوچ کے سہارے ایک بہتر کل کا انتظار کرتے ہیں۔
ہمیں اپنے خواب نئی نسل کو منتقل کرنے ہوں گے وہ صبح ضرور آئے گی جس کا انتظار ہم نے کیا ہے۔ وہ ہم دیکھ سکیں گے یا نہیں یہ ضروری نہیں مگر وہ صبح آئے یہ اہم ہے۔