کراچی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ کراچی اب لوگوں کے رہنے کی جگہ نہیں رہی جہاں پینے کے لیے پانی میسر نہیں، ہزاروں روپے دے کر پانی کا ٹینکر مل جاتا ہے جب کہ یہ وہی پانی ہے جو کراچی کا ہے اور شہریوں کو ملنا چاہیے مگر نہیں مل رہا۔ پانی کے اس کاروبار میں بڑے بڑے لوگ اور ان کے بھی پیچھے اور بڑے لوگ شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب وہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے سٹی ناظم تھے تو کراچی دنیا کے 12تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں میں شامل تھا جب کہ آج صورتحال یہ ہے کہ لوگ پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں اور شہر کے کھلے ہوئے گٹروں میں گر کر بچے مر رہے ہیں اور اب بدقسمتی سے انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ستر فی صد بیماریاں مضر صحت پانی پینے سے ہوتی ہیں۔
کراچی کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال تھے تو ملک کے صدر کراچی سے تعلق رکھنے والے جنرل پرویز مشرف تھے جو ملک کے واحد حکمران تھے جو کراچی کو اون کرتے تھے اور انھوں نے اس شہر کا حق واقعی ادا کیا تھا اور 2008 سے قبل ہی سٹی حکومت کراچی کو بڑی مقدار میں وفاق سے فنڈز فراہم کرائے تھے اور سندھ اور وفاق کی حکومتوں نے بھی کراچی میں اپنے اپنے فنڈز سے تعمیری و ترقیاتی کام کرائے تھے اور کراچی کو کسی حد تک اس کا حق ملا تھا۔ پرویز مشرف نے کراچی میں پیدائش کا حق ادا کیا تھا اور کراچی کو اسی طرح اپنا شہر سمجھ کر ترقی دلوائی تھی جس طرح شریف فیملی نے لاہور اور یوسف رضا گیلانی نے لاہور اور ملتان کو اپنا شہر سمجھ کر ترقی دلائی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل پرویز کے ضلعی حکومتوں سے بہترین مقامی حکومتوں کے بااختیار بلدیاتی نظام میں کراچی، لاہور اور دیگر شہروں نے ریکارڈ ترقی کی تھی اور جنرل پرویز نے کراچی کے پہلے سٹی ناظم نعمت اللہ خان اور دوسرے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کو کھل کر کراچی کی تعمیر و ترقی کا موقعہ دیا اور دونوں سے بھرپور تعاون کیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف ملک کے واحد حکمران تھے کہ جنھوں نے پہلی بار بااختیار مقامی حکومتوں کا نظام دیا تھا اور کمشنری نظام ختم کرکے ناظمین کو انتظامی و مالی اختیارات دیے تھے جس کے نتیجے میں کراچی ملک کے 13 بڑے میگا سٹیز میں شامل ہو گیا تھا اور کراچی کی تعمیر و ترقی میں جماعت اسلامی کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان اور ایم کیو ایم کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کی ذاتی محنت اور صدر پرویز مشرف کی ذاتی دلچسپی بھی شامل تھی اور ان کے ادوار میں کراچی میں جو تعمیر و ترقی ہوئی، پیپلز پارٹی کی 17سالوں سے قائم سندھ حکومت اس رفتار کو قائم نہیں رکھ سکی۔ سندھ کے حکمرانوں کا کراچی سے تعلق نہیں مگر پی پی چیئرمین بلاول بھٹو اور ان کی والدہ اور بہنیں کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔
کراچی کی پیپلز پارٹی کے سوا ہر سیاسی جماعت اور سماجی تنظیمیں سندھ حکومت پر کڑی تنقید کرتی آ رہی ہیں اور ان کا الزام ہے کہ پی پی کی سترہ سالوں سے برسر اقتدار حکومت نے کراچی کو تعمیری و ترقیاتی کاموں میں ترجیح دی نہ ضرورت کے مطابق فنڈز دیے جس کی وجہ سے کراچی کی 2008 تک ہونے والی تعمیر و ترقی رک گئی اور شہر کے مسائل بڑھتے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کے رہنے والے ہی نہیں بلکہ دوسرے صوبوں کے دانشور اور سیاستدان بھی کراچی کے ساتھ ناانصافیوں کی باتیں کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کراچی کی بڑی سیاسی جماعتیں اور کراچی کی نمایندگی کر رہی ہیں اور اپنی اپنی سیاست کے لیے ایک دوسرے پر تنقید اور الزام تراشی تینوں کا معمول بنا ہوا ہے جب کہ کراچی میں جرائم مسلسل بڑھ رہے ہیںاور حادثات معمول بنے ہوئے ہیں جن پر کنٹرول کرنے کے بجائے کراچی اور ٹریفک پولیس کے پاس صرف دعوے ہی دعوے ہیں اور سندھ حکومت نے ٹرانسپورٹ کی حالت میں بہتری کے لیے بسیں ضرور چلائی ہیں اور اب سینئر وزیر نے ڈبل ڈیکر بسوں کی آمد کی خوشخبری دے دی ہے ،یہ بھی دیکھنے کی بات ہے جہاں پہلے سڑکیں ہوتی تھیں وہاں اب گڑھے اور مٹی کے ڈھیر پڑے ہیں جس کی وجہ سے وزیر ٹرانسپورٹ یہ بھی بتا دیں کہ آنے والی ڈبل ڈیکر بسیں کہاں پر چلائی جائیں گی۔
کراچی میں روزانہ ٹریفک حادثات میں ہونے والی ہلاکتوں پر امیر جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت اور پولیس شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکیں اور روزانہ دل خراش حادثات اور ڈکیتیوں کے باعث بے گناہ لوگ اپنی جانوں سے جا رہے ہیں اور انھوں نے کراچی کا بجٹ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔
کراچی کے شہری اپنے گھروں کے دروازوں پر محفوظ ہیں اور نہ بھتہ خوری کنٹرول ہو رہی ہے۔ دوسری طرف ٹریفک نظام کی بہتری کے لیے ٹریفک قوانین توڑنے والے شہریوں پر بھاری جرمانوں کی سزا بھی عائد کر دی گئی ہے جس سے شہری سخت پریشان اور بہت ضروری کاموں سے ہی سڑکوں پر گاڑیاں نکالنے لگے ہیں۔ مہنگائی و بے روزگاری نے شہریوں کی زندگی پہلے ہی اجیرن کی ہوئی ہے ۔ چلنے کے لیے شہر میں سڑکیں ہیں نہ پینے کا پانی۔ بجلی و گیس کی نایابی عام اور شہر بے شمار المیوں کا شکار ہے۔