جرمنی میں کرسمس کی تعطیلات کے دوران چوروں کی فلمی انداز میں ایک بڑی اور غیر معمولی بینک ڈکیتی نے پورے ملک میں سنسنی پھیلا دی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق پولیس نے تحقیقات کے بعد انکشاف کیا ہے کہ فلمی انداز سے چوری کرنے والے مفرور ملزمان معروف فلم اوشنز الیون سے متاثر لگتے ہیں۔
اوشنز الیون 2001 کی ایک مشہور امریکی کرائم اور کامیڈی فلم ہے جس کے ہدایت کار اسٹیون سوڈر برگ تھے۔
اس فلم کی کہانی ایک ذہین اور چالاک چور ’ڈینی اوشن‘ کے گرد گھومتی ہے جو جیل سے رہائی کے بعد لاس ویگاس کے تین بڑے کیسینو ایک ہی رات میں لوٹنے کا منصوبہ بناتا ہے۔
اپنے منصوبے کے لیے وہ مختلف مہارتوں کے حامل گیارہ افراد پر مشتمل ایک ٹیم بناتا ہے، جن میں ماہر جواری، ٹیکنالوجی ایکسپرٹ اور بھیس بدلنے کے ماہر شامل ہوتے ہیں۔
فلم میں جارج کلونی، بریڈ پٹ اور میٹ ڈیمن سمیت کئی معروف اداکاروں نے کردار نبھائے تھے اور یہ سسپنس تھرلر موویز کے شوقین فلم بینوں کی پسندیدہ فلم بن گئی تھی۔
اوشنز الیون اپنی دلچسپ کہانی، ذہین مکالموں، تیز رفتار واقعات اور مزاحیہ انداز کی وجہ سے دنیا بھر میں بے حد مقبول ہوئی اور بعد میں اس کے سیکوئل بھی بنائے گئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بینگ ڈکیتی کا بھی ایک مرکزی ملزم تھا جس نے اپنی پوری ٹیم تشکیل دی اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ڈکیتی کی واردات انجام دی۔
انوکھی چوری کی دلچسپ واردات کی بھیانک کہانی
مغربی جرمنی کے شہر گیلسن کرچن میں اسپارکاس بینک کی ایک بند برانچ میں چور دیوار میں سوراخ کرکے داخل ہوئے اور انوکھی واردات انجام دی۔
پولیس نے مزید بتایا کہ نامعلوم ملزمان بینک سے منسلک ایک پارکنگ گیراج کی دیوار میں سوراخ کرکے بینک کے اندر تک پہنچے۔
بھاری مشینری اور بڑے ڈرل کی مدد سے انہوں نے بینک کی موٹی کنکریٹ دیوار میں سوراخ کیا اور زیر زمین والٹ روم میں داخل ہو گئے۔
وہاں موجود تقریباً 3 ہزار سیف ڈپازٹ بکس کو توڑا گیا جن میں نقد رقم، سونا اور قیمتی زیورات رکھے گئے تھے۔
لُوٹے گئے سامان کی مجموعی مالیت کا اندازہ 10 ملین سے 90 ملین یورو کے درمیان لگایا جا رہا ہے جو امریکی ڈالر میں تقریباً 11 ملین سے 105 ملین بنتی ہے۔
جرمن خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ یہ واردات ملک کی تاریخ کی بڑی چوریوں میں شامل ہو سکتی ہے۔
پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ اس منصوبے کو انجام دینے کے لیے غیر معمولی مہارت، پیشگی معلومات اور بھرپور منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔
بینک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 3 ہزار 250 میں سے 95 فیصد سے زائد صارفین کے سیف ڈپازٹ بکس متاثر ہوئے ہیں۔
اگرچہ ہر باکس کی اوسط بیمہ شدہ مالیت 10 ہزار یورو سے کچھ زیادہ تھی، تاہم کئی صارفین نے پولیس کو بتایا ہے کہ ان کے نقصان کی اصل مالیت بیمہ شدہ رقم سے کہیں زیادہ ہے۔
پولیس کو اس واردات کا علم اس وقت ہوا جب پیر کے روز بینک میں فائر الارم بجا۔ تاہم اب تک یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ چوری کس دن یا کس وقت کی گئی۔
سیکیورٹی کیمروں کی فوٹیج میں ایک سیاہ رنگ کی آڈی آر ایس 6 کار کو بینک کی پارکنگ سے نکلتے دیکھا گیا جس میں نقاب پوش افراد سوار تھے۔
تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ گاڑی کی نمبر پلیٹ پہلے ہینوور شہر سے چوری کی گئی تھی تاہم اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
دوسری جانب بینک کے صارفین میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ درجنوں متاثرہ افراد بینک کے باہر جمع ہوئے اور انتظامیہ سے جواب دہی کا مطالبہ کیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی خدشات اور بینک عملے کو ملنے والی دھمکیوں کے باعث شاخ کو عارضی طور پر بند رکھا گیا ہے تاہم صورت حال اب نسبتاً پُرسکون ہے۔
بینک انتظامیہ نے متاثرہ صارفین کو خطوط ارسال کرنے اور ہاٹ لائن قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بیمہ کمپنیوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے معاوضے کے طریقہ کار پر کام شروع کر دیا۔
بینک کے ترجمان نے کہا کہ ہم اس واقعے پر شدید صدمے میں ہیں اپنے صارفین کے ساتھ کھڑے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ملزمان جلد قانون کی گرفت میں آ جائیں گے۔
واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں یورپ اور امریکا میں بڑی ڈکیتیوں کے واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں فرانس کے لوور میوزیم سے کروڑوں ڈالر مالیت کے زیورات کی چوری اور امریکا میں نقدی کے بڑے ذخیرے پر ہاتھ صاف کرنے جیسے واقعات شامل ہیں۔