طالبان نے کن کتب اور مضامین پر پابندی عائد کیں؛ فہرست سامنے آگئی

طالبان نے حکومت سنبھالتے ہی خواتین کی ملازمتوں، لڑکیوں کی تعلیم سمیت متعدد سماجی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں


ویب ڈیسک December 31, 2025
طالبان نے سیکڑوں کتب پر پابندی عائد کردی

افغانستان میں طالبان حکومت نے کتابوں، نصاب اور معلومات تک رسائی پر سخت پابندیوں کا دائرہ 2025 کے دوران نمایاں طور پر وسیع ہو گیا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت نے نہ صرف عام کتب خانوں اور بک شاپس کے لیے ممنوعہ کتابوں کی فہرستیں جاری کیں بلکہ جامعات کے نصاب کو بھی ازسرِ نو ترتیب دیتے ہوئے درجنوں مضامین اور سینکڑوں نصابی کتب ختم کر دیں۔

میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا کہ اکتوبر 2024 میں لائبریریوں اور کتاب فروشوں کو 400 سے زائد کتابیں ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا۔

جس کے بعد جنوری 2024 میں صرف کابل میں ہی پچاس ہزار سے زائد کتابیں ضبط کی گئیں۔ اس کے بعد جولائی 2025 میں ایک خصوصی کمیٹی قائم کی گئی جسے جامعات کے نصاب اور درسی کتب کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

اس کمیٹی نے ستمبر 2025 میں 679 نصابی کتب پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا اور 18 یونیورسٹی مضامین مکمل طور پر ختم کر دیے، جبکہ 200 سے زائد مضامین کو محدود یا مشروط قرار دیا گیا۔

ممنوع قرار دیے گئے مضامین میں انسانی حقوق، جمہوریت، آئینِ افغانستان، سیاسی نظام، انتخابی نظام، صنفی مطالعہ، خواتین سے متعلق سماجیات، اخلاقی فلسفہ، تاریخِ مذاہب اور عالمی سیاست جیسے موضوعات شامل ہیں۔

ان میں سے کئی مضامین کا تعلق براہِ راست خواتین یا جدید سماجی و سیاسی تصورات سے ہے۔ طالبان حکام کا مؤقف ہے کہ یہ مضامین شریعت اور اسلامی امارت کی پالیسیوں سے متصادم ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پابندی کا شکار ہونے والی کتب میں بڑی تعداد ایرانی مصنفین اور خواتین مصنفات کی ہے۔ یونیورسٹیوں میں خواتین کی تحریر کردہ کسی بھی کتاب کو پڑھانے پر عملاً مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

اسی طرح ایرانی مصنفین کی کتب پر بھی یہ کہہ کر پابندی لگائی گئی ہے کہ افغان نصاب میں ایرانی اثر و رسوخ کو روکا جائے حالانکہ فارسی زبان کے ذریعے صدیوں سے علمی مواد افغانستان تک پہنچتا رہا ہے۔

عام کتابی منڈی کے لیے جاری فہرست میں افغانستان کی حالیہ تاریخ، طالبان کے مخالف سیاسی و عسکری رہنماؤں، شیعہ برادری، خواتین کے حقوق، علاقائی سیاست اور خود طالبان تحریک سے متعلق تحقیقی کتب شامل ہیں۔

کئی معروف افغان اور غیر ملکی محققین کی تحریریں بھی ممنوع قرار دی گئی ہیں۔ طالبان کے نزدیک ان کتب کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ یہ ملکی مفاد، اسلامی عقائد یا ثقافتی اقدار کے خلاف ہیں۔

مذہبی موضوعات پر بھی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔ شیعہ فکر، صوفی ازم، اسلامی فلسفہ، اور یہاں تک کہ بعض کلاسیکی اسلامی تصانیف بھی پابندی کی زد میں آئی ہیں۔

اس کے علاوہ عیسائیت، فلسفہ، مارکسزم اور مغربی سیاسی و سماجی نظریات سے متعلق کتب بھی ممنوع فہرست میں شامل ہیں۔ خواتین کی حالت، فیمینزم اور خود نوشتوں پر مبنی کئی عالمی شہرت یافتہ کتابیں بھی ہٹا دی گئی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پابندیاں صرف فہرستوں تک محدود نہیں رہیں۔ بک شاپ مالکان اور ناشرین کے مطابق بعض سرکاری اہلکار اپنی صوابدید پر بھی کتابیں ضبط کر لیتے ہیں، چاہے وہ فہرست میں شامل ہوں یا نہیں۔

نئے کتب کی اشاعت کے لیے بھی حکومت سے پیشگی اجازت لینا لازم قرار دیا گیا ہے، جس سے اشاعتی عمل مزید مشکل ہو گیا ہے۔

خیال رہے کہ طالبان حکومت کتابوں اور نصاب پر پابندیوں کو مغربی اثرات کے خلاف ایک طویل المدتی حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہی ہے۔

ان کے نزدیک جدید تعلیم، تنقیدی سوچ اور خواتین کی شمولیت ایک بیرونی ایجنڈا ہے جو افغان معاشرے اور اسلامی شناخت کو کمزور کرتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت مستقبل کی نسلوں کو صرف وہی علم فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو طالبان کے عقائد اور نظریات سے ہم آہنگ ہو۔

ذیل میں خبر میں شامل وہ مضامین اور نصابی شعبے دیے جا رہے ہیں جنہیں اسلامی امارتِ افغانستان کی قائم کردہ کمیٹی نے 2025 میں جامعات کے لیے مکمل طور پر ممنوع قرار دیا ہے، یا جنہیں نصاب سے خارج کر دیا گیا ہے۔

وہ 18 جامعاتی مضامین جو مکمل طور پر ختم کر دیے گئے

  1. افغانستان کے بنیادی قوانین

  2. اسلامی سیاسی تحریکیں

  3. اچھی حکمرانی

  4. انتخابی نظام

  5. افغانستان کا سیاسی نظام

  6. افغانستان کی سیاسی عمرانیات

  7. جینڈر اور ترقی

  8. انسانی حقوق اور جمہوریت

  9. آئینِ افغانستان کا تجزیہ

  10. عالمگیریت اور ترقی

  11. تاریخِ مذاہب

  12. خواتین کی عمرانیات

  13. اخلاقی فلسفہ

  14. جنسی ہراسانی

  15. ملازمت میں صنفی تنوع

  16. چھوٹے گروہوں کی قیادت

  17. صنفی تعلقات

  18. ذرائع ابلاغ میں خواتین کا کردار

ان میں سے چھ مضامین براہِ راست خواتین اور صنفی مطالعے سے متعلق ہیں جبکہ باقی جدید سیاسی، سماجی اور فکری تصورات پر مبنی ہیں۔

وہ مضامین جو مکمل طور پر ممنوع نہیں لیکن سخت نگرانی میں دے دیے گئے

کمیٹی نے 200 سے زائد مضامین کو محدود یا مشروط قرار دیا ہے، جنہیں صرف مخصوص دائرے اور سرکاری ہدایات کے تحت پڑھانے کی اجازت ہے۔

  • مغربی سیاسی فکر کی تاریخ

  • امن اور تنازع کے حل کے مطالعات

  • انسانی نفسیات اور بالخصوص بچوں کی نفسیات

  • صارفین کے حقوق

  • اخلاقیات

  • عالمی نظام اور بین الاقوامی تعلقات

  • شمسی نظام

  • ترقیاتی مطالعات

  • سماجی تحقیق کے جدید طریقے

کن شعبہ جات کے نصاب سب سے زیادہ متاثر ہوئے

رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ متاثر ہونے والی فیکلٹیز یہ ہیں:

  • قانون اور سیاسیات

  • پبلک ایڈمنسٹریشن اور پالیسی

  • عمرانیات

  • صحافت اور ابلاغیات

  • تعلیمی اور پیشہ ورانہ علوم

  • نفسیات

  • شریعت

  • زبان و ادب

  • تاریخ

  • جغرافیہ

  • معاشیات

  • آرٹس (خصوصاً تھیٹر اور سینما کی تاریخ و تنقید)

 

مقبول خبریں