بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ

جہاں عمارتیں نہیں ہیں وہاں وسیع وعریض کھیتوں کے گرد سیمنٹ کی عارضی چاردیواریاں نظر آتی ہیں



احمد فراز کاشعر ہے 
 بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والو
 کرہ ارض کے بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ

 لگے ہاتھوں اس غزل کا مقطع بھی سن لیجیے کہ یہ بھی کچھ کم فکر انگیز بلکہ تشویشناک ،المناک اورغم ناک نہیں ہے 
 ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فراز
 رات تو رات ہے ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ

 چاند ستاروں سیاروں کرہ ارض اورتاریکیوں کا ذکر تو بعد میں کریں گے کیوں کہ یہ ایک بڑا موضوع ہے کہ پاکستان کے پرچم ہی میں نہیں ہر ہرمقام پر چاند اورستارے جلوہ گر ہیں بلکہ عوام کو بھی چاند تارے دکھا رہے ہیں وہ بھی دن دھاڑے ۔

احمد فراز تو دن کو چراغ جلاتا تھا اوریہاں لیڈروں سے لے کر کھلاڑیوں، فن کاروں، اداکاروں تک سب کے سب ملک کو چاند ستارے دکھا رہے ہیں خاص طور پر رہبران کرام اوررہزنان عظام کا تو کام ہی عوام کو چاند تارے دکھانا ہے حالانکہ 
جب ستارے ہی نہیں مل پائے
لے کے ہم شمس وقمر کیا کرتے

جس راستے سے ہمارا عمر بھر کاآناجانا ہے یعنی پشاور اورنوشہرہ کے درمیان جی ٹی روڈ اوراس کے دونوں کنارے ، اس پر جو بے پناہ ترقی گزشتہ چند سالوں میں ہوئی ہے وہ حیران کن ہے۔ 

پہلے سڑک کے دونوں اطراف میں جہاں بدصورت، بدنما منحوس اورفٹے منہ قسم کے کھیت نظر آتے تھے جن میں فضول قسم کی فصلیں اورہریالیاں ہوتی تھیں۔

اسٹوپڈ قسم کے حیوان نما انسان اور مال مویشی نظر آتے تھے، گھاس پھونس ہوتی تھی، وہاں اب حد نظر تک رنگ برنگی دیدہ زیب اوروسیع و عریض بلند وبالا عمارتیں نظر آتی ہیں جگہ جگہ کالونیاؒں اور ان کے خوش نما بورڈ دکھائی دیتے ہیں۔

جہاں عمارتیں نہیں ہیں وہاں وسیع وعریض کھیتوں کے گرد سیمنٹ کی عارضی چاردیواریاں نظر آتی ہیں ، کہیں کہیں پلاٹ برائے فروخت۔پراپرٹی ڈیلروں کے بورڈ بھی لگے ہیں، ایسے لگتا ہے جیسے ساری دنیا ایسے نیکوکار ، دیندار، ایماندار اورخدمت گار لوگوں سے بھر گئی ہے جو انسانوں کو سرچھپانے کے لیے گھر پیارا گھر فراہم کرنے میں مصروف ہوچکے ہیں۔

بلکہ اس کے علاوہ بھی کچھ اوران سے بھی زیادہ دیندار، ایماندار، پرہیزگار لوگ دکھائی دیتے ہیں جو ان کے درمیان لوگوں کو دنیاوی سہولتیں دینے کے ساتھ ساتھ اخروی سعادتیں بھی دے رہے ہیں۔

یوں کہیے کہ کچھ اس دنیا میں جنتیں دے رہے ہیں اوراس دنیا میں لگژری رہائش گاہیں دلارہے ہیں  چنانچہ ان نیک اوربھلے لوگوں نے جگہ جگہ عبادت گاہیں بنانے کا نیک کام شروع کررکھا ہے۔

جگہ جگہ چارپائیاں ، ان کے اوپر چادریں ، چادروں کے اوپر کچھ نوٹ اوران نوٹوں کے اوپرچھوٹے چھوٹے پتھر، اورچندہ برائے … کی خوش خبریاں … مطلب یہ کہ اس سڑک کے دونوں طرف لگژریاں ہی لگژریاں دونوں جہانوں کے کھیتوں کے بجائے عمارات ہی عمارات اورفصلوں کے بجائے دیواریں ہی دیواریں۔ 

یقین کریں ہم تو بے پناہ ترقی دیکھ کر بہت خوش ہوجاتے ہیں لیکن اس دنیا میں ہم جیسے بھلے لوگوں کے علاوہ کچھ منفی اوربرے لوگ بھی بہت ہیں ، چنانچہ ایک ایسے ہی برے اور منفی آدمی نے کہیں لکھا ہے کہ اگر زمین اسی طرح برباد ہوتی رہی اور اس پر خوراک کے بجائے ایسے ہی سیمنٹ اورسریے کے جنگل اگتے رہے تو ایک دن وہ بھی آسکتا ہے کہ انسان بھوک سے تڑپ تڑپ کر مرجائے گا۔

اس احمق نے اپنی احمقانہ تحریر میں نہایت احمقانہ قسم کے دلائل بھی دیے ہیں ۔مثلاً جب سے یہ زمین وجود میں آئی ہے، زمین مسلسل کم ہورہی ہے، وہ دن دور نہیں ہے کہ انسان کوخوراک کے لالے پڑ جائینگے، کیوں کہ انسان نے بہت کچھ ایجاد کیا ہے ، ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے، روبوٹ تیارکررہا ہے ،مصنوعی ذہانت پیداکررہا ہے یہاں تک کہ انسان بنانے کی فکرمیں بھی ہے بلکہ کسی حد تک بنانے بھی لگا ہے ، کلوننگ وغیرہ کے ذریعے ۔

یہ رنگ برنگی مشینیں ، جہاز، گاڑیاں ، کمپیوٹر، موبائل ،مطلب یہ کہ سب کچھ، لیکن۔۔۔ لیکن روٹی نہ بناسکا ہے نہ بناسکے گا ،نہ انسان کے پیٹ کاکچھ کرسکا ہے وہ ہمیشہ سے زمین دے رہی تھی ،دے رہی ہے اوردیتی رہے گی اوروہ زمین کے علاوہ اورکچھ نہ دے سکا ہے، نہ دے رہا ہے، نہ دے سکا ہے اورتو اوراس احمق جاہل بے وقوف نکتہ چین نے ایک شعر بھی لکھا ہے کہ ۔

کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو

مطلب کہ اس منفی اورترقی دشمن شخص نے ہرطرح سے زمین پر بے تحاشا تعمیرات کی مخالفت اور مذمت کی ہے اورپھر سوال اٹھایا کہ جب زمین بڑھتی ہوئی آبادی کے مقابل کم پڑجائے تو پھر انسان کیاکرے گا ؟ کیا کھائے گا؟
 

مقبول خبریں