بھارتی سیکولر ازم کے تضادات

مظاہرین نے اس دوران بھارتی اسسٹنٹ ہائی کمشنر کی رہائش گاہ کے باہر بھی احتجاج کیا


ڈاکٹر یونس حسنی January 01, 2026

اخباری اطلاع یہ ہے کہ پچھلی 20 تاریخ کو آر ایس ایس اور شیو سینا کے دہشت گردوں نے نئی دہلی میں بنگلہ دیش کے ہائی کمیشن پر حملہ کر دیا۔

وہ بنگلہ دیش ہاؤس میں گھس گئے اور بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر ریاض حمید اللہ کو جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ اس غنڈہ گردی کے ردعمل کے طور پر بنگلہ دیش ہائی کمیشن نے نئی دہلی میں قونصلر اور اجرائے ویزا کی خدمات غیر معینہ مدت کے لیے ختم کر دی ہیں۔

یہ اقدام اس واقعے کے دو دن بعد کیا گیا جب کچھ لوگوں نے بنگلہ دیش ہائی کمیشن کے سامنے احتجاج کیا اورکچھ لوگ بیریئر توڑ کر ہائی کمیشن کی عمارت میں داخل ہو گئے، اس خبر سے بنگلہ دیش میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ چٹاگانگ میں نوجوان بھارتی دہشت گردی کے خلاف بپھر گئے اور بھارتی ڈپلومیٹک پوسٹ پر پتھراؤ کیا۔


ادھر بھارتی حکومت نے وضاحت پیش کی کہ گزشتہ دنوں بنگلہ دیشی ہائی کمیشن پر ہونے والے حملے میں سیکیورٹی کی غفلت بنگلہ دیش کا محض پروپیگنڈا ہے، لیکن بھارت کے اس دعوے کی بنگلہ دیشی وزارت خارجہ نے سختی سے تردید کی ہے۔

اسی اثنا میں بنگلہ دیش میں سیاسی تشدد کا ایک اور واقعہ ہوا۔ نیشنل سٹیزن پارٹی کے رہنما عبدالمطلب پر نامعلوم حملہ آوروں نے گولی چلائی۔ گولی ان کے کان کو چیرتی ہوئی دوسری سمت سے نکل گئی۔ ادھر پولیس نے دو اخبارات کے دفاتر پر حملے کے الزام میں 17 افراد کو گرفتار کر لیا۔

ادھر بنگلہ دیش کے سب سے بڑے لینڈ پورٹ پیٹراپول پر احتجاج کے باعث ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا۔ بنگلہ دیش میں یہ احتجاج بھارت کی بنگلہ دیش میں غیر قانونی مداخلت کے باعث ہو رہا ہے۔

مظاہرین مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی سرحد کے قریب پہنچ گئے اور انھوں نے ’’ نو مین لینڈ‘‘ پر جا کر بھارت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے اس دوران بھارتی اسسٹنٹ ہائی کمشنر کی رہائش گاہ کے باہر بھی احتجاج کیا اس دوران نوجوان رہنما شریف عثمان ہادی کے مبینہ قاتل کا بھی انکشاف ہو گیا۔ اس پر سفری پابندی عائد کردی گئی۔

 بھارت نے 1971 مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیشی عوام کو پاکستان کے خلاف اکسا کر پاکستان کو دولخت کر دیا۔ اس کا فائدہ اگر کچھ ہوا تو یہ ہوا کہ پاکستان بھارتی ہتھکنڈوں سے آشنا ہو گیا اور اب وہ کسی بھارتی چال میں پھنسنے کو تیار نہیں۔

ادھر بنگلہ دیش کو بھی اندازہ ہو گیا کہ وہ اور پاکستان اگر علیحدہ بھی ہو جائیں تو اس علیحدگی کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ دو بھائیوں نے اپنی اپنی جائیداد الگ کر لی ہے وہ جس دینی ڈور سے بندھے ہوئے ہیں اس لیے مکمل دوری نہ بنگلہ دیش کے لیے قابل قبول ہے نہ پاکستان کے لیے اور میلوں کا فاصلہ ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کے عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور ایک کا نقصان دوسرے کا زیاں بن جاتا ہے۔

بنگلہ دیش کی علیحدگی نے ایک کے بجائے دو مسلم ممالک کو جنم دے دیا ہے۔ بھارت کو اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

اس سارے مسئلے کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا، مگر وہ ایک آئیڈیل اسلامی مملکت تو کیا بنتا پوری طرح اسلامی ملک بن ہی نہ سکا۔

البتہ وہ ایک مسلم ملک کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان میں اسلام کا نفاذ کامل طور پر لاکھ نہ ہوا ہو مگر اس کے مسلم خدو خال بہت واضح ہیں۔

ایک مسلم ملک کی حیثیت سے بھی پاکستان بنیادی اسلامی اصولوں کو برت رہا ہے اور پاکستانی معاشرے میں کامل اسلامی اقدار مضبوطی سے قائم نہ ہو سکی ہوں مگر اسلامی رواداری، بھائی چارے اور انسانی اقدار کے فروغ کے عناصر موجود بھی ہیں اور دکھائی بھی دیتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے کے بارے میں یہ شکایات کبھی سننے کو نہیں ملتیں کہ وہاں اقلیتوں کو ہراساں کیا جاتا ہو یا ان کے حقوق غصب کیے جاتے ہوں بلکہ پاکستان میں اقلیتیں پورے سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں اور بحیثیت پاکستانی شہری انھیں مسلمانوں کے برابری کے حقوق حاصل ہیں۔

اس حقیقت کا اظہار پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے حالیہ بیان سے بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے 25 دسمبر کو راول پنڈی کے کرائسٹ چرچ میں منعقدہ کرسمس کی تقریبات میں شرکت کی اور مسیحی برادری کو ان کے اس اہم دن کی تقریبات کے لیے مبارک باد پیش کی۔

اس موقع پر فیلڈ مارشل نے مسیحی اقلیت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نظریہ پاکستان کی بنیادی اساس ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ مارشل نے مساوات، آزادی اور مذہبی رواداری کے قائد اعظم کے وژن کی وضاحت کی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو پاکستانی نظریے کی بنیادی اساس قرار دیا۔

انھوں نے صرف مملکت پاکستان کی اقلیتوں سے حسن سلوک کو بھی واضح نہیں کیا بلکہ اس موقع پر مسیحی برادری کی نسل در نسل پاکستانی معاشرے اور مسلح افواج میں غیر معمولی شراکت داری کو سراہا۔

دوسری جانب ہندوستانی معاشرہ اپنی جمہوریت پسندی کے تمام دعوؤں کے باوجود اقلیتوں سے نہ صرف بے نیازی بلکہ ان کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔

خصوصاً وہاں کی مسلم اقلیت کے ساتھ ان کا معاندانہ رویہ اب پوری دنیا پر واضح ہو چکا ہے اور ان کی ہندوتوا یعنی بنیادی ہندومت سے وابستگی واضح اور پختہ ہو چکی ہے۔ مسلمان تو بھارت میں اقلیت کہے جانے کے لائق نہیں۔

ان کی تعداد تو پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہوگی، مگر خود سکھ تو واقعی اقلیت میں ہندو انتہا پسندی کا شکار اور ہندو معاشرے سے بے زار ہیں اور اس بے زاری کا سبب ہندو ذہن کی تنگ نظری ہے جو ’’ہندو‘‘ کے علاوہ کسی کو انسان قرار دینے کو تیار نہیں۔

یہ تنگ نظری کسی اورکو نہیں خود ہندوتوا کو لے ڈوبے گی اور اسی تنگ نظری کے باعث بھارت کا مستقبل جمہوری ریاستی اعتبار سے تاریک نظر آتا ہے۔
 

مقبول خبریں