کراچی کی ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے ایک فیصلہ سنایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خودکشی کا موجودہ قانون کمزور اور خودکشی پر اکسانے والوں کو سزا دینے سے قاصر ہے اور خاتون کی خودکشی کا، اس کا شوہر صرف اخلاقی طور ذمے دار ہے مگر اسے قانونی طور سزا نہیں دی جا سکتی۔
واضح رہے کہ ملک میں خودکشی جرم نہیں، البتہ اقدام خودکشی جرم ہے مگر اس پر بھی سزا شاذ و نادر ہی دی جاتی ہے۔ فاضل جج نے بھارتی قانون 306 اور 498 اے کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلے میں ایک خاتون جس نے شادی کے صرف سات ماہ بعد اپنے سسرالیوں کے رویے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔
جس پر عدالت نے خاتون پر گھریلو تشدد ثابت نہ ہونے پر اس کے شوہر اور دو دیوروں کو اس لیے بری کر دیا کہ خودکشی کمرے کے اندر پنکھے سے لٹک کر کی گئی تھی اور خودکشی کرنے والی خاتون نے اپنے خط میں خود پر گھریلو تشدد کا ذکر کیا تھا اور اس کے شوہر نے اپنی بیوی پر سسرال والوں کے مظالم روکنے میں ناکامی دکھائی تھی جس سے مجبور ہو کر خاتون نے خودکشی کرلی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سندھ ڈومیسٹک وائلنس ایکٹ ناکافی اور اس میں سزا بہت کم ہے جس کی وجہ سے خواتین مظالم برداشت کرتی ہیں یا مجبوراً خودکشی کر لیتی ہیں جس میں کچھ بچ جاتی اور باقی جان دے دیتی ہیں اور قانون کی خامی کے باعث ملزمان کو سزا نہیں دی جا سکتی۔
اس کیس میں پراسکیوٹر کا موقف تھا کہ مرحومہ کے شوہرکا رویہ غیر حفاظتی اور غفلت پر مبنی تھا مگر قانونی خامی کے باعث ملزموں کو سزا نہیں دی گئی اور تینوں بری ہو گئے۔
مٹھی میں ایک دیہی 45 سالہ خاتون نے اپنے بیٹے کے ہمراہ اپنے نشئی شوہر کے خلاف احتجاج کیا کہ اس نے نشے کے لیے جہیز میں ملے مویشی فروخت کر دیے اور رقم نشے میں اڑا دی اور مزید رقم کے لیے بیوی پر تشدد شروع کر دیا جس پر خاتون نے خلع کے لیے عدالت میں درخواست دی اور احتجاج کیا کہ اس کا جہیز واپس کرایا جائے۔
ملک بھر اور خاص کر سندھ میں دیہی خواتین کی خود کشیوں اور احتجاج کی خبریں میڈیا میں آنا معمول ہے اور شہروں میں بھی طلاق اور خلع کے معاملات میں بہت تیزی آئی ہوئی ہے اورکراچی و لاہور کی عدالتوں میں خلع کے ہزاروں مقدمات زیر سماعت ہیں اور بعض خواتین اپنے شوہروں کے ہاتھوں اس لیے بھی قتل ہو رہی ہیں کہ انھوں نے خلع کے لیے عدالت سے کیوں رجوع کیا۔ ایسے بھی قتل ہوئے ہیں کہ خلع کے بعد متعلقہ خاتون نے دوسری شادی کر لی جس پر مشتعل سابق شوہر نے اپنی سابقہ بیوی کو نہیں بخشا اور اسے قتل کر دیا۔
طلاق شوہر کا مذہبی اور خلع لینا،خاتون کا قانونی حق ہے مگر بعض حلقے عدالتی خلع کو بھی متنازع بنائے ہوئے ہیں کہ خلع لینے والی خاتون اب بھی اس کی بیوی ہے اور وہ شوہر کی طلاق کے بعد ہی دوسری شادی کر سکتی ہے۔
ملک بھر کے پس ماندہ اور دیہی علاقوں میں خواتین پر شوہروں اور گھریلو تشدد کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے جس کی ایک وجہ بے روزگاری، مہنگائی اور نشہ اہم ہیں جب کہ اس دو طرفہ تشدد سے متوسط طبقے اور پوش علاقوں کی خواتین بھی محفوظ نہیں جنھیں مالی مشکلات کا سامنا تو نہیں مگر عدم برداشت اور زبان درازی کا عنصر بھی شامل ہے اور شوہروں سے معمولی جھگڑوں کے بعد گھر چھوڑ کر میکے چلے جانے اور کسی طرف سے پیش رفت نہ ہونے کے بعد خلع، طلاق اور خودکشیوں کو آسان حل سمجھ لیا گیا ہے۔
خواتین جھگڑ کر اپنے میکے تو چلی جاتی ہیں مگر انھیں اب میکے میں بھی وہ ماحول میسر نہیں جو انھیں شادی سے پہلے حاصل تھا۔ جہاں اب انھیں بھائی سے زیادہ بھابھیوں کے طعنے سننے پڑتے ہیں۔ ماں باپ تو اولاد کو برداشت کر لیتے ہیں مگر بچے ساتھ لے کر جانے والی خواتین بھی مہنگائی اور نفسا نفسی کے دور میں بوجھ تصور ہوتی ہیں اور وہاں بھی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔
اور شوہر بھی معمولی تنازع کو انا کا مسئلہ سمجھ لیتے ہیں اور کچھ بیوی بچوں کی غیر موجودگی کو اخراجات میں بچت سمجھ کر اپنا گھریلو سکون برباد کیے رکھتے ہیں اور اپنی بیوی بچوں کا بوجھ اپنے سسرالیوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں جو غلط ہے مگر غیر قانونی نہیں۔ شادی کے بعد بیوی بچوں کی ذمے داری شرعی طور پر شوہر کا فرض ہے جو اپنے فرض کو نہیں نبھاتے جس سے تنازعہ شدید اور مستقل علیحدگی کی وجہ بن جاتا ہے جس میں بیوی سے زیادہ شوہر ذمے دار ہوتا ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق شادی شدہ خواتین سسرالیوں کے مظالم برداشت کرتی رہتی ہیں اور شوہر سے شکایت پر شوہروں کی بے بسی، مجبوری، بیوی کی حمایت جھگڑے بڑھا دیتی ہے یا شوہر بھی بیوی کا جائز ساتھ دینے کے بجائے الٹا اپنے گھر والوں کی ناراضگی نہیں چاہتے اور پھر بیوی سسرال کے بعد شوہر کے مظالم اور تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
جس کے لیے قانون تو بنا دیے گئے مگر حکومتی حلقوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس طرح بیوی کی شکایت مزید تلخی بڑھا دیتی ہے اور خواتین کسی حد تک سسرال کے ساتھ شوہر کا ظلم برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں کیونکہ انھیں اپنے بچوں کے مستقبل اور گھر بچانے کی بھی فکر ہوتی ہے مگر صرف دانشمند خواتین ہی ایسا سوچتی ہیں۔
بیویوں سے جھگڑوں اور گھریلو تنازعات پر شادی شدہ نوجوانوں میں بھی خودکشیوں اور تشدد کے معاملات اب تشویش ناک ہوگئے ہیں۔ اگر کہیں بیوی گھریلو تشدد اور شوہروں سے شکایات پر خودکشی کر رہی ہے تو وہاں بیوی کے رویوں کی وجہ سے شوہر بھی خودکشی کر رہے ہیں اور بیوی کی شوہر کے ساتھ نہ جانے کی ضد میں شوہر بھی مشتعل ہو کر اپنی بیوی اور اس کی حمایت کرنے والے سسرالیوں کو بھی قتل کرکے فرار ہو رہے ہیں۔
جس کی ذمے داری ضدی اور ہٹ دھرم بیویوں پر عائد ہوتی ہے جو شوہر کے ساتھ جانے سے انکار کر کے جھگڑا بڑھاتی ہیں اور اس کے میکے والے بھی اپنی بیٹی کو سمجھانے کے بجائے اس کے شوہر پر ہی الزامات لگا کر معاملہ بگاڑ دیتے ہیں اور بیوی کی حمایت کرکے شوہر کو ہی مطمئن کرتے ہیں۔
میاں بیوی کے جھگڑے شادی کے سالوں بعد اور بچوں کے بعد تو ہوتے ہی تھے اور دونوں یا ان کے بڑے مداخلت کرکے میاں بیوی میں صلح کرا دیتے تھے مگر اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ نئے شادی شدہ نوجوانوں میں بھی شادی کے بعد جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔
کورنگی کراسنگ میں اہلیہ ناراض ہو کر شادی کے صرف ڈیڑھ ماہ بعد میکے چلی گئی جس کو منانے کے لیے شوہر نے فون کیا تو تلخی مزید بڑھ گئی اور مایوس ہو کر شوہر نے خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔
شوہر کو اس انتہائی اقدام پر مجبور کرنے والی بیوی اگر معمولی بات کو نہ بڑھاتی تو خود بھی جوانی میں بیوہ نہ ہوتی اور ناراضگی ختم کرکے اپنے شوہر کو بچا سکتی تھی۔
موجودہ مہنگائی و بے روزگاری کے شکار جوڑوں میں بھی برداشت ختم ہو رہی ہے اور دونوں ایک دوسرے کی مجبوریاں نہیں سمجھتے اور اپنا گھر بگاڑ لیتے ہیں۔
شوہر کو حصول روزگار کے لیے جن حالات کا سامنا رہتا ہے یہ بیوی نہیں سمجھتی اور مالی تنگی کی شکار بیوی کی مشکلات شوہر نہیں سمجھتا اور اس کا غصہ بیوی پر اور بیوی کا بچوں یا جوائنٹ فیملی کے افراد پر نکلتا ہے جس پر شوہر بیوی کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے اور شوہروں کے مظالم اور تشدد کا شکار خواتین انتہائی مجبور ہو کر تھانوں یا میڈیا والوں کے پاس جا کر شکایات یا احتجاج کرتی ہیں جس سے جھگڑا مزید بڑھ جاتا ہے اور نوبت علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے۔
بیویاں گھریلو تشدد تو سہہ لیتی ہیں اور انھیں شوہر کی حمایت ملتی ہے نہ تحفظ۔ تھانوں میں شکایات پر اگر خواتین کو تشدد سے تحفظ دینے والا قانون حرکت میں تو آتا ہے مگر فیملی کورٹس میں میاں بیوی کے جھگڑے نمٹانے یا صلح کرانے کے بجائے اپنے مالی مفاد کے لیے بڑھائے جاتے ہیں۔
خواتین کے تحفظ کا قانون اتنا کمزور ہے کہ جس سے خواتین کو فائدے کے بجائے نقصان ہو رہا ہے اس لیے خواتین عدم برداشت پر مجبور ہو کر خودکشی کر لیتی ہیں یا اپنا گھر بگاڑ لیتی یا صبر کر لیتی ہیں۔