یہی تو اصل میں کنفیوژن ہے

خیبر سے اٹک تک غم کی آگ ہی آگ بھڑک اٹھی۔۔۔


Saad Ulllah Jaan Baraq September 10, 2014
[email protected]

لاہور: یہ سن کر آپ کے ہاتھوں کے طوطے، بیٹر،کوئے، تیتر سب اڑ گئے ہوں گے کہ مملکت ناپرسان کے معروف کالم نگار، تجزیہ نگار اور قصہ نگار ''گو مگو کش مکش'' کی وفات مسرت آیات ہو گئی، حسرت آیات کے بجائے ''مسرت آیات'' اس لیے کہ پورے ناپرسان میں آگ لگ گئی اور چونکہ آگ میں جلنے والی املاک سب کی سب بیمہ شدہ تھیں اس لیے گھر والوں کی مسرت کی انتہاء نہ رہی، آگ کی شدت کا اندازہ اس شعر سے لگایئے جو ناپرسان کے ملک الشعراء نے فی البدیہہ کہا

سہ د غم خبر دے واؤریدو خٹکہ
چہ لمبے شوے د خیبر نہ تراٹکہ

یعنی یہ کیا غم کی خبر سنی گئی کہ خیبر سے اٹک تک غم کی آگ ہی آگ بھڑک اٹھی، مرحوم کالم نگار، تجزیہ نگار اور قصہ نگار کو بہت سارے خطابات سے نوازا گیاتھا، مثلاً کالم فگار، کالم بگھار، کالم بگاڑ، کالم جگاڑ وغیرہ ۔۔۔۔ حکومت امریکا نے غوبل پرائز دیا تھا اور روس نے اسے اسٹالن انعام سے قدر دانی کی تھی، موصوف کی زندگی اور فن پر بات کرنے کے لیے تو ہم نے ناپرسان سے ان کے شاگرد رشید بڑبولے خان کو بلوایا ہوا ہے اور اس کا ساتھ دے رہے ہیں، وہی دونوں جن کا نام نہ لینا مردہ باد کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے، موصوف اتنی صفات سے متصف تھے کہ جب ان کی وفات ''مسرت آیات'' پر عزیز و اقربا ان کی زوجہ سے اظہار مسرت کرنے پہنچے اور مردوں کی ٹولی نے ان کی صفات کا پٹارہ کھولا تو اس کی زوجہ نے خواتین کی ٹولی سے کہا کہ یہ مرد لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں، آئے ہیں ''ان'' کی موت پر ۔۔۔ اور ذکر کر رہے ہیں کسی اور کا ۔۔۔۔ ان کی صفات پر اور جھوٹ سے احتراز کرتے ہوئے میں گیند کو اپنی منڈلی ''چونچ بہ چونچ'' میں پھینکتا ہوں جو ''چینل ہیاں سے ہواں تک'' کا رسوائے زمانہ پروگرام ہے، لیجیے اسٹارٹ کا بٹن دباتے ہیں۔

اینکر : جناب بڑبولے صاحب، بڑ بڑ بولے
بڑ : میری طرف سے بھی بڑ بولے
اینکر : یہ تو بتایے کہ مرحوم گو مگو کش مکش کی عمر کتنی تھی؟
بڑ : یہی تو کنفیوژن ہے موصوف کو دنیا میں پیدا ہونے والی اور نہ پیدا ہونے والی ہر چیز کا پتہ تھا لیکن اپنی عمر کے بارے میں انھوں نے کبھی کوئی قطعی تاریخ نہیں لکھی ہے۔
اینکر : یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
بڑ : یہی تو کنفیوژن ہے موصوف کی یہ عادت تھی کہ وہ ہر موقع واردات پر ''چشم دیدگی'' کے شوقین تھے چنانچہ ایک طرف اگر انھوں نے اوباما کو رنگ گورا کرنے کے لیے ٹپ کا ذکر کیا ہے تو دوسری طرف مہاراجہ رنجیت سنگھ اور بہادر شاہ ظفر کو بھی صلاح و مشورے دینے کا منصب رکھتے تھے۔
اینکر : یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
بڑ : یہ ایسے ہو سکتا ہے کہ ابھی کل ہی وہ نریندر مودی کے بلاوے پر دلی میں بھی تھے اور اسی وقت روس میں صدر پوٹن سے یوکرائن کا مسئلہ بھی ڈس کس کررہے تھے۔
اینکر : سنا ہے دنیا میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا جس کے وہ چشم دید نہ رہے ہوں اور نہ ہی گزشتہ سو سال میں ایسی کوئی شخصیت گزری ہو جس کے ساتھ اس کی غڑغوں نہ ہوئی ہو۔
بڑ : یہ بالکل غلط ہے مجھے ذاتی طورپر علم ہے کہ ایک موقع پر وہ خود موجود نہ تھے۔
اینکر : وہ کون سا موقع تھا؟
بڑ : بلکہ دو مواقعے تھے ایک وہ اپنی پیدائش کے وقت غیر حاضر تھے اور دوسرے اپنی وفات کے دن بھی موجود نہیں تھے
چشم : کمال ہے تو پھر پیدا کون ہوا تھا اور مرا کون تھا؟
بڑ : اس کا قلم اور کالم ایک ساتھ پیدا ہوئے وہ خود دو چار دن کے بعد ان کے پیچھے پیچھے آگئے۔
علامہ :اور مرا کون تھا؟
بڑ : یہی تو کنفیوژن ہے وہ اس وقت دلی میں نریندرمودی کے ساتھ چائے پکوڑے کھا رہے تھے۔
علامہ : تو مرے کیسے؟
بڑ : یہی تو کنفیوژن ہے وہ یہاں اپنے کمپیوٹر ای میل میں مرے تھے جب ان کوفون پر خبر سنائی گئی کہ آپ اس میل میں مر گئے ہیں تو فوراً پہنچے اور یہ دوسرا دن تھا ان کے مرنے کا
اینکر : تم دونوں چپ رہو یہ بتایے بڑ بولے صاحب کہ وہ زیادہ تر ہوتے کہاں تھے، دفتر میں یا گھر میں۔۔۔
بڑ : یہی تو کنفیوژن ہے وہ اپنے گھر اور دفتر کے سوا باقی ہر جگہ ہوتے تھے۔
چشم : کمال ہے کیا وہ کوئی ''جن'' تھا۔
علامہ : جن ۔۔۔ مگر میں تو کسی کالم نگار جن کو نہیںجانتا تھا اور اگر میں نہیں جانتا تھا تو وہ جن بالکل بھی نہ تھا۔
بڑ : یہی تو کنفیوژن ہے کہ وہ جن نہ تھے لیکن ''کالم جناتی'' لکھتے تھے۔
اینکر : وہ کیسے؟
بڑ : ملک کے اندر تو وہ ہر حکومت کے ہر رکن کے ساتھ ہر وقت موجود رہتے تھے۔ کسی کے ساتھ ناشتہ کر رہے ہوتے تو کسی کے ساتھ لنچ کرتے ہوئے کسی کے ساتھ عصرانہ تو کسی کے ساتھ عشائیہ۔
چشم : کس لیے؟
بڑ : وہ لوگ اسے ہر مسئلے پر صلاح مشورے کے لیے بلاتے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ ان کے بغیر نہ ان کو کھانے میں لطف آتا تھا نہ پینے میں
اینکر : بین الاقوامی لیڈروں کے ساتھ بھی تو ہوتے تھے اتنا وقت کیسے نکال لیتے تھے
بڑ : یہی تو کنفیوژن ہے اگر ایک کالم میں وہ ملکی وزیراعظم سے ملاقات یا صدر سے گفتگو کرتے تو دوسرے دن کے کالم میں وہ صدر کینیڈی کے قتل کی چشم دید گواہی بھی دیتے۔
چشم :پھر تو یقیناً جن تھے۔
علامہ : جن تو ہو نہیں سکتے۔
بڑ : یہی تو کنفیوژن ہے کہ جن نہیں تھے لیکن انسان بھی نہ تھے کیونکہ وقت اور مقام کی قید سے آزاد تھے، اپنے کالم میں جب چاہتے جس جگہ چاہتے اور جسے چاہتے حاضر کر لیتے تھے اس کو کھری کھری سناتے اور گوشمالی تک کر دیتے تھے۔
اینکر : مثلاً کیسے؟ کب اور کہاں ؟
بڑ : یہی توکنفیوژن ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے بل کلنٹن کو انھوں نے اس وقت آڑے ہاتھوں لیا تھا جب اس نے ہیلری جیسی خوب صورت خاتون کے بجائے ایک اور کلنکنی کو مرکز نگاہ بنایا تھا۔
علامہ : سنا ہے ایوب خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف کو بھی انھوں نے مارشل لاء نہ لگانے کا مشورہ دیا تھا اور یحییٰ خان کو بھی مجیب الرحمن سے پنگا سے روکا تھا۔
چشم : نہیں بلکہ میں نے خود پڑھا ہے کہ اس نے ان چاروں جرنیلوں کومارشل لاء لگانے اور بنگلہ دیش پر چڑھ دوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔
بڑ : یہی تو کنفیوژن ہے دراصل موصوف کو یادداشت کی پرابلم تھی، ایوب خان کے سلسلے میں دس سال ضیاء الحق کے معاملے میں تیرہ سال اور مشرف کے زمانے کے آٹھ سالوں تک ان کو یہ غلط فہمی رہی کہ مارشل لاء لگانے کا مشورہ انھوں نے دیا تھا لیکن بعد میں ان کی یادداشت واپس آگئی اور لگانے کے بجائے نہ لگانے کا اپنا مشورہ یاد آیا۔
علامہ : ذرا ایک بات تو بتائیں انھوں نے اپنے کالموں میں ایسا کوئی روزگار نہیں ہے جو انھوں نے نہ کیا ہو جوانی میں اسٹوڈنٹ لیڈر تھے بعد میں انھوں نے تمام پارٹیوں کے بانیوں کے ساتھ بنیادی رکن کے طور پر کام کیا ۔
بڑ : تو اس میں غلط کیا ہے۔۔۔۔
علامہ : سب کچھ ہی تو غلط ہے کیونکہ دوسری طرف ایسا کوئی اخبار نہیں ایسا کوئی چینل نہیں جس میں انھوں نے کام نہ کیا ہو حتیٰ کہ مولانا ظفر علی خان، چراغ حسن حسرت، مجید سالک کے ساتھ بھی رہے ۔۔۔۔ اتنا وقت کیسے نکال پاتے۔
بڑ : یہی تو کنفیوژن ہے دراصل وہ جیسا کہ میں نے کہا وہ جن نہیں تھے لیکن کچھ جناتی صفات رکھتے تھے بلکہ مجھے تو ایک اور شک ہے۔
اینکر : وہ کیا جناب بڑبولے بڑ ۔
بڑ : مجھے یہ شک ہے اور کہا جاتا ہے کہ بڑبولے کا گمان دوسروں کے یقین سے بھی زیادہ پکا ہوتا ہے ۔۔۔ کہ موصوف ایک نہیں بلکہ کئی تھے۔
چشم :کیا مطلب کیا انھوں نے اپنے آٹھ دس ڈپلی کیٹ بنوائے تھے۔
بڑ : ڈپلی کیٹ انھوں نے نہیں قدرت نے بنوائے تھے اصل میں مجھے جوشک ہے وہ یہ ہے کہ موصوف کے چار ہمشکل بھائی اور تھے۔
اینکر : کیا مطلب ۔۔۔؟
بڑ : یہی تو کنفیوژن ہے مجھے یقین نہیں گمان ہے اور بڑبولے کا گمان یقین سے کم نہیں ہوتا۔
اینکر : تفصیل میں غوطیے مطلب یہ کہ غوطہ لگایئے۔
بڑ : تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ کئی بار ایسا ہوا کہ وہ میرے ساتھ سارا دن رہے اور اپنے کالم میں دوسرے دن لکھا کہ وہ سارا دن وزیراعظم کے ساتھ تھے یا وائٹ ہاؤس میں تھے یا 10 ڈاوننگ اسٹریٹ میں تھے۔

مقبول خبریں