پاکستان کی خاطر
پاکستان کے 18 کروڑ عوام یا مسلمان اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں...
LONDON:
ارض پاک مسلمانان ہند کے عظیم الشان اور فقید المثال قربانیوں کا وہ ثمر ہے جو اﷲ رب العزت نے اس دھرتی پر آباد مسلمان کو ایک نعمت اور امانت کے طور پر عطا کیا ہے۔ نعمت اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ارض پاک کے چاروں طرف ایسے خزانے ہیں جو عام انسانوں خصوصاً پیدائشی پاکستانی مسلمانوں کو نظر نہیں آ سکتے۔ یہ نعمت خداوندی، یہ دھرتی کے بیش بہا خزانے صرف وہی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں جنھوں نے اس ارض پاک کے لیے قربانیاں دی ہیں۔
پاکستان کے 18 کروڑ عوام یا مسلمان اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں یہ ان کا اپنا ذاتی فعل ہے اور ان کی اپنی سوچ ہو گی لیکن مورخ کی آنکھیں گزشتہ کل بھی کھلی ہوئی تھیں آج بھی مورخ جاگ رہا ہے اور تمام واقعات کو قلم بند کر رہا ہے، مورخ کی تحریر کی ہوئی تاریخ کو آنیوالے کل کا پاکستانی مسلمان پڑھے گا۔ آج کے اس ظلمت کدہ دور اور تاریکی میں بھٹکی ہوئی انسانیت خصوصاً پاکستانی عوام کی مظلومیت و معصومیت کی سچی تاریخ جب کل آنیوالے دور کا پاکستانی مسلمان پڑھے گا تو اس بات کا فیصلہ خود کریگا کہ ماضی میں پاکستان کے خیر خواہ کون لوگ تھے یا کن کن لوگوں کو اقتدار و ایوان سے دلچسپی تھی، کن کن لوگوں کو اپنے سرکاری منصب سے محبت تھی۔
آج جو کچھ پاکستانی عوام کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے ذمے دار کوئی اور نہیں صرف اور صرف پاکستان کے حکمران ہیں۔ ارض پاک ایک امانت ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستانی عوام میں تعلیم کا شعور و ادراک جس حد تک ہے اور جتنے فیصد بھی ہے لفظ امانت کے معنی مفہوم کو بخوبی طور پر جانتے ہونگے۔ اس لفظ امانت کی تشریح اور وضاحت کی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ عوام پر چاروں طرف سے ظلم کیوں ہو رہا ہے اور کون کر رہا ہے۔ مہنگے داموں اشیائے خور و نوش کو لوگ فروخت کر رہے ہیں نظام مملکت اور نظام معیشت کس کے ہاتھ میں ہے یہ کون لوگ ہیں کیا آسمان سے کوئی نئی مخلوق آئی ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے یہ ہمارے اندر اور ہم ہی میں سے منتخب ہو کر سارے پاکستان پر چھائی ہے یا یوں کہہ لیں تو زیادہ مناسب ہو گا کہ ہم نے تو خود ہی ان کو ایوان اقتدار میں پہنچایا ہے کہ وہ پاکستانی عوام کی رہنمائی و قیادت کریں۔
سو ہمارے ایوان حکمران و اقتدار اپنے پاکستانی عوام کے مطالبوں کی مکمل ترجمانی کر رہے ہیں کیونکہ ووٹ ایک امانت ہے اور آپ نے اپنی امانت کے ذریعے ایوان کو منتخب کیا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ آپ کے حکمران اور سیاستدان جن کو آپ نے لمبی لمبی قطاریں لگا کر ووٹ دے کر کامیاب کرایا ہے آج وہ آپ کے توقعات پر پورے نہیں اتر پا رہے ہیں۔ وہ آپ کی خواہشات اور آپ کی تقدیر نہیں بدل پا رہے ہیں یہ سب کچھ کیوں کر ہو رہا ہے آپ کے ساتھ؟ یہ سوال آج ہر پاکستانی کے لیے ہے اگر وہ صدق دل سے خود اپنے کیے ہوئے فیصلے اور دیے گئے ووٹ کا احتساب کریں تو ان کو جواب مل جائے گا۔
انھوں نے ووٹ جیسی امانت کو کس طرح خیانت میں تبدیل کیا ہے بالکل اسی طرح ارض پاکستان ایک مقدس امانت ہے جو لاکھوں شہدا کی قربانیوں کا ثمر ہے جس کے حصول کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن جب ہم پاکستان کی 67 سالہ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کا ابتدائی زمانہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خاں کی بے رحمانہ قتل و موت کی داستان سناتی ہے اس کے بعد کے 6سال آئین و دستور سازی کی تیاری اور بربادی کی کہانی کے ساتھ ساتھ 8 سے زائد وزیر اعظم کا تقرر اور رخصتی کی داستان ہے یعنی آنے اور جانے کی ایک مختصر تاریخ ہے۔
اس کے بعد 1958ء کا پہلا مارشل لاء ہے جو پاکستانی عوام کو اس لیے دیا گیا کہ انھوں نے آئین پاکستان خاص طور پر قرارداد مقاصد 1949ء کی روشنی میں پاکستان کے نظام حکومت و ریاست کو اسلام اور قرآن کے سانچے میں تبدیل نہیں کیا اس کے بعد جب 25 سال کا عرصہ گزر گیا تو ہم مزید امانت میں خیانت کر بیٹھے اور ایسی غلطی پاکستانی حکمرانوں، پاکستانی سیاستدانوں، پاکستانی اہل قلم و دانشوروں سے ہوئی جس کا خمیازہ جس کا نتیجہ پاکستان کے دو ٹکڑوں کی صورت میں برآمد ہوا۔
آج 18 کروڑ عوام اپنے ایک بازو سے محروم ہیں اور ایک بازو جو ان کے پاس باقی بچا ہے اس بازو میں اتنی جان اور طاقت نہیں کہ وہ دشمن سے مقابلہ کر سکیں۔ اس کی مثال ہر پاکستانی اس تناظر میں دیکھے کہ اﷲ رب العزت نے ہر انسان کو دو بازو عطا کیے ہیں جو ایک نعمت ہے اگر انسان کے جسم سے ایک بازو علیحدہ ہو جائے تو انسان کے لیے کس قدر مشکلات پیدا ہونگی یہ مجھ سمیت ہر انسان اس حقیقت کو بخوبی جانتا بھی ہے اور محسوس بھی کرتا ہے بس صرف احساس حقیقی کی ضرورت ہے۔
آج کا پاکستانی مسلمان یہ نعرے کیوں لگاتا ہے کہ میں فلاں ہوں فلاں گروہ یا گروپ سے میرا تعلق ہے۔ اس کہانی کا آغاز یا اس قسم کے الفاظ کی ابتدا کہاں سے ہوئی، دین ہمارا ایک ہے، کتاب ہماری ایک ہے، رسول ہمارا ایک ہے تو پھر پاکستانی مسلمانوں یہ نفرت، لسانیت اور عصبیت کے بیج کب اور کس نے بوئے۔ اس کا جواب کون دیگا۔ کچھ لوگوں کو مشرف کے جانے کی فکر ہے، کچھ لوگوں کو نئے انتخابات کی فکر ستارہی ہے، کچھ لوگوں کو زرداری کی سیاسی مفاہمت یاد آ رہی ہے، کچھ لوگوں کو نواز شریف کے چلے جانے یا بچانے کی فکر ہے، کچھ مذہبی رہنماؤں کو اپنی ڈوبتی ہوئی کشتی کی فکر ستا رہی ہے، کچھ سیاسی بازی گروں کو اپنی سیاست کی ناکامی ستا رہی ہے۔
یہ تو ہے صورتحال آج کے پاکستان کی عوام کی۔ غفلت میں ڈوبے پاکستانی مسلمانوں کو اب اپنی آنکھیں کھولنی ہوں گی اگر انھوں نے اپنی زندگی کا محاسبہ نہ کیا، اپنے رب کی تعلیمات و محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت سے خود کو ہم آہنگ نہ کیا تو زمانے کا سیلاب ان کو بہا کر لے جائے گا جس طرح طوفان نوح نے سب کچھ بہا کر تباہ و برباد کر دیا تھا۔ اﷲ رب العزت اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو قوم خود اپنی حالت بدلنے پر کمر بستہ نہ ہو۔ وقت اور حالات اور بڑھتے ہوئے انسانی زندگی کے مسائل کا فوری اور قابل قبول حل یہ ہے کہ تمام امت محمدیہ ایک مرکز پر جمع ہوں اور سچے دل سے اﷲ رب العزت سے توبہ و استغفار کریں اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ آج کا دور مسلم امہ اور پاکستانی مسلمانوں سے اس بات کا مطالبہ کر رہا ہے کہ موجودہ صورتحال اور مصیبت و پریشانی کے اس وقت کو خاموشی سے گزار دینے کا ہر گز نہیں ہے بلکہ دور حاضر کے حالات اور خطرات کا گہری سوچ، عقل و فہم اور ادراک کے ساتھ غور و فکر کا ہے، باہمی اتحاد و اتفاق کے مظاہرے کا ہے۔
قومی یکجہتی اور حب الوطنی کا ہے۔ اگر آج مسلمانان پاکستان نے اس نازک اور خطرناک وقت میں غفلت اور بے پرواہی سے کام لیا۔ خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے تو ایک جرم عظیم ہو گا جس کے نقصان کے ازالہ کی گنجائش نہ ہو گی اور اس جرم عظیم کا ان کو حساب دینا ہو گا اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو موجودہ لہر قومی وجود اور وحدت کو ملیامیٹ کر دیگا اور ہم سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہ کر سکیں گے۔
اگر ہم اپنے وطن عزیز میں دور حاضر کے حالات کو مد نظر رکھیں تو ہمیں اس بات کا احساس ہو گا کہ ہمارے چاروں طرف دشمن نے گھیرا تنگ کیا ہوا ہے، پاکستان کی سلامتی و استحکام کو اس وقت شدید خطرات کا سامنا ہے اور آج کہیں زیادہ ہوشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے اس نازک موقع پر ہمارے حکمرانوں و سیاستدانوں کو اور خطرات میں گھرے ہوئے پاکستانی عوام اور اس کی سرحدوں کو بچانے کی جستجو عقل و ہوش، تحمل و برد باری اور صبر و استقامت سے کرنا چاہیے۔