پاکستان ایک نظر میں ڈیم ہماری لاشوں پر بنیں گے

اِسوقت پاکستان میں گیارہ لاکھ کیوسک کاسیلاب ہے لیکن اگر یہاں ڈیم بن گئے تو پاکستان لاکھوں کیوسک تک پانی جمع کرسکتا ہے۔


فرحان خان September 12, 2014
جو لوگ یہ نعرہ لگاتے نہیں تھکتے کہ ‘‘ڈیم ہماری لاشوں پر بنیں گے’’ کیا وہ بتاسکتے ہیں کہ اب تک سیلاب میں اُن کا کیا نقصان ہوا ہے؟ نقصان تو ہمیشہ اِس ملک میں غریب کا ہی ہوتا ہے اور بھلا اُس کا سوچنے والا یہاں کون ہے؟. فوٹو؛ فائل

جھنگ شہر کے نواحی گاؤں میں رہنے والا کریم بخش جس کی ڈاڑھی میں کالا بال ڈھونڈنے سے ہی ملتا ہے، اس نے اپنی پوری زندگی ایک کچا مکان بنانے میں لگا دی، وہ سارا سال اپنی زمینیں کاشت کرنے میں گزار دیتا ہے اور پھر انتظار کرتا ہے اب مجھے اس کاشت کا پھل ملے تو میں عید پر اپنے بچوں کے لئے نئے کپڑے خرید سکوں لیکن اس کی امنگوں پر پانی پھر جاتا ہے جب وہ سنتا ہے کہ جھنگ شہر کو سیلابی ریلے سے بچانے کے لئے بند توڑا جائے گا اور سیلابی ریلے کا رخ اس کے گاؤں کی طرف ہو جائے گا۔ وہ سوچھتا ہے کہ کیا میرا یہ قصور ہے کہ میں غریب ہوں؟ کیا میرا یہ قصور ہے کہ میں محنت کش ہوں۔ لیکن پارلیمنٹ میں موجود سیاستدانوں کو کیا فکر؟ فکر تو کریم بخش جیسے اس ملک کے لاکھوں کروڑوں غریبوں کو ہے۔

ڈیم ہماری لاشوں پر بنیں گے۔۔ اس نعرے کی پاکستان کی سیاسی افق پر بار بار گونج سنائی دیتی ہے ۔ہر سال سیلاب آتے ہیں، ہر سال غریب کے گاؤں بہہ جاتے ہیں لیکن یہ نعرے لگانے والے ان غریبوں کے لئے کیا کرتے ہیں؟ اگر ڈیم نہیں بننے چاہئے تو کوئی متبادل تو قوم کو فراہم کریں یا یہ نعرہ بس ہر سیاسی نعرے کی طرح اپنی سیاست چمکانے کے لئے ہے؟ کیا یہ نعرہ کسی کے کہنے پر لگایا جاتا ہے؟ کیا یہ کوئی اتفاق ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیرمیں ڈیم پر ڈیم بناتا جا رہا ہے لیکن ہمارے ان سیاسی تیس مار خانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی؟ کہتے تھے ڈیم بننے سے نوشہرہ ڈوب جائے گا، میرے دوست نوشہرہ تو 2010 میں ڈیم بننے کے بغیر بھی ڈوب کیا تھا۔ لاشیں گرتی ہیں کریم بخش جیسے غریبوں کی۔ آپ کی تو ساری دولت ہی ملیشیا جیسے ملکوں میں پڑی ہے۔ آپ کو کیا فکر؟

کریم بخش کی سات سالہ بیٹی اب بھی اپنے والد کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھتی ہے کہ شاید اس عید پر پچھلی عید کی طرح نیا جوڑا مل جائے گا لیکن کریم بخش تو سر پر چھت نا ہونے پر پریشان ہے۔ 2010 میں یہ سیلاب خیبر پختون خواہ میں آیا تھا، آج یہ سیلاب پنجاب کے دیہاتوں کو بہاتا ہوا سند ھ میں داخل ہو جائے گا۔ حکومت کی طرف سے اعلانات کیے جائیں گے کہ متاثرہ لوگوں کو پیسے دیے جائیں گے اور ہر سال کی طرح غریب بینکوں کے دھکے کھائیں گے۔ حکمران غریبوں کے لئے راشن کارڈ تو جاری کر دیتے ہیں لیکن کبھی ان کو تعلیم یافتہ بنا کر راشن کارڈ استعمال کرنے کا طریقہ نہیں سکھاتے۔ یہ منظر آپ کو ہر مہینے کے اوائل دنوں میں نظر آئیں گا کہ غریب لوگ اے ٹی ایم مشین کے باہر کھڑے آنے جانے والے لوگوں سے منتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ اس کارڈ کے ذریعے پیسے نکال دیں۔

اطلاعات کے مطابق موجودہ سیلاب گیارہ لاکھ کیوسک کا ہے، جبکہ ڈیم بننے سے پاکستان لاکھوں کیوسک تک پانی جمع کر سکتا ہےاور اسی سیلاب کو اپنے لئے پانی کے ذخیرےمیں بدل کر آنے والے کئی سالوں تک پانی کے مسئلے سے نمٹ سکتا ہے۔لیکن نہیں! ڈیم تو ہماری لاشوں پر بنیں گے۔ بھاشہ ڈیم 2037 تک ملتوی کر دیا کیونکہ میٹرو بس زیادہ ضروری ہے۔ بھاشہ کے لئے فنڈز نہیں ہیں جبکہ عالمی بینک نے بھی بھاشہ ڈیم کے لئے قرضے کی ادائیگی کو بھارت کی مرضی سے مشروط کر دیا ہے۔ لیکن یاد آیا، بھارت تو ہمارا بہترین دوست ہے، آؤ انہیں عام کی پیٹیاں بھیجیں۔ کیا پتا وہ ڈیم بنانے کا گرین سگنل دے دیں۔ اگر اس سے کام نہیں چلا تو ان کے سربراہ کی والدہ کے لئے کچھ ساڑیاں بھیج دیں گے، شاید والدہ اپنی ضدی بچے کو منا لے کہ پاکستان کو اجازت دے دو۔ یا پھر ان سیاست دانوں کو ڈیموں کی مخالفت سے روک دو۔

مقبول خبریں