بات کچھ اِدھر اُدھر کی آج بھی احمد رمضان کو پکار رہا ہے

اِس وقت جو ملک کے حالات ہیں یہ بالکل اُسی قربانی کے متقاضی ہیں جو تحریک پاکستان کے موقع دی گئی تھی۔


فرحان خان September 16, 2014
ہمیشہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ یہ قوم صرف کسی آزمائش کے موقع پر ہی متحد ہوتی ہے اور عام حالات میں وہی کافر کافر، سندھی پنچابی کے نعرے لگ جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

اکتیس جولائی اور یکم اگست کی درمیانی رات ہے، تمتماتی ہوئی گرمی ہے اور احمد ایک کونے میں بیٹھا اپنی بوڑھی ماں کے بارے میں سوچ رہا ہے جسے وہ کچھ دن پہلے ہی اسی منزل کی طرف روانہ کر چکا تھا جس کی طرف آج خودگامزن ہے۔ گرمی اور ریل کی چک چک نے اس کی نیند اڑادی ہے۔ کیا میری ماں خیریت سے ہوگی؟ کیا اس نے آج رات کا کھانا کھایا ہوگا؟ وہ سارا دن یہی سوچتا ہوا پریشان ہوتا تھا، ساتھ بیٹھا اس کا دوست رمضان احمد کے چہرے پر مایوسی اور پریشانی دیکھ کر غمگین ہے۔احمد اور رمضان کی دوستی چند گھنٹے ہی گہری اور آشنائی بھی اسی وجہ سے ہوئی کہ انکی منزل ایک ہے۔ اتنے میں خبر آتی ہے کہ سکھوں نے اس ٹرین پر بھی حملہ کر دیا ہے، اس سے پہلے کہ احمد اور رمضان کچھ کر پاتے، کچھ تلوار لیے سکھ ان کی بگی میں سوار ہو جاتے ہیں اور ایک کی تلوار کا رخ احمد کی جانب ہوتا ہے۔ رمضان جانتا ہے کہ احمد اپنی ماں کا آخری سہارا ہے، رمضان آگے بڑھ کر اس درندے سے گھتم گھتا ہوتا ہے اور احمد کو چلا کر کہتا ہے کہ بگی سے چھلانگ لگا دے، احمد نا چاہتے ہوئے بھی چھلانگ لگا دیتا ہے اور اتنے میں رمضان کے سینے سے تلوار پار ہوجاتی ہے۔

یہ کہانی ہے پاکستان کی آزادی کی جب اس طرح کے ہزاروں رمضان اپنے نئے دوست احمد کے لئے قربان ہو گئے تھے۔ جب جذبے کا یہ عالم تھا کہ اپنے بھائی کی حفاظت کے لئے تلوار بھی قبول تھی۔ وہ جذبہ اب کہاں چلا گیا؟ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کو ہم نے بھائی چارے اور باہمی رواداری کے جذبے سے حاصل کیا تھا؟ اب تو روزانہ اخبار میں خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو جائیداد کے تنازعے پر قتل کر دیا۔ ایک دوست نے دوسرے دوست کو ایک معمولی سی بحث پر موت کے گھاٹ اتار دیا، کوئی مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں جبکہ کوئی علاقائی بنیاد پراور آجکل تو سیاسی مخالفت پربھی لوگ مخالفین کے مرنے پِٹنے پر خوش ہوتے ہیں۔ کیا پاکستان بننے کا یہی مقصد تھا؟ کیا رمضان نے احمد کے لئے قربانی اس لئے دی تھی کہ ہم پاکستانی ایک دوسرے کے درمیان نفرتوں کے پہاڑ کھڑے کر دیں۔

پاکستان سے یاد آیا ہمارے بابائے قوم کا نام محمد علی جناح ہے اور انہوں نے ڈھاکہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ "صوبائیت اور فرقہ واریت ایک لعنت ہے" ۔ بابائے قوم شاید اس وقت ہی سمجھ گئے تھے کہ ہمارے درمیان نفرتوں کے بیج انہی دو وجوہات کی بنا پر بوئے جائیں گے۔ لیکن ہم نےبحیثیتِ قوم بابائے قوم کو القابات اور کتابوں میں مضمون لکھنے کے علاوہ حیثیت ہی کب دی ہے؟ جس مذہب کے نام پر اس ملک کو قائم کیا تھا، شاید اس کا لحاظ کرتے ہوئے ہی ہم لسانیت، فرقہ واریت اور صوبائیت سے نجات کر لیتے۔ جس نبی کی حرمت کے لئے مرنے کے دعوے کرتے ہیں، کاش اس نبی کی تعلیمات کے مطابق جینے کی کوشش ہی کر لیتے۔

اس جذبہ ایثار کی جھلک ہمیشہ تب ہی کیوں نظر آتی ہے جب ملک پر کوئی ناگہانی آفت آتی ہے، خواہ وہ 1965 کی جنگ ہو، 2005 کا زلزلہ ہو یا پھر 2010 سے اب تک آنے والے سیلاب۔قوم ناگہانی آفات پر ہمیشہ یکجا ہو جاتی ہے، لیکن جیسےہی اس قومی امتحان سے قوم نکلتی وہی کافر کافر، پنجابی پٹھان، میری زمین میری جائیداد کے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ نا کوئی مستقل مزاجی، نا وہ جذبہ ایثار۔ کیا رمضان بھی اسی ملک کے فرزندوں میں سے نہیں تھا؟ کیا احمد بھی ہمارے ان بھائیوں کی طرح نہیں تھا جو بہت ہی پریشانی کے عالم میں ہیں، کوئی سیلاب کی وجہ سے، تو کوئی غربت و افلاسی کی وجہ سے۔کیا آج ہم اپنے اندر رمضان کا جذبہ اجاگر کر کے اس ملک کے لاکھوں احمد جیسے مجبوروں کے لئے قربانی نہیں دے سکتے؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

مقبول خبریں