گر مجھے اس کا یقین ہو…

فرح ناز  بدھ 24 ستمبر 2014

1947ء کی آزادی کے بعد آج پھر آزاد ملک میں رہتے ہوئے آزادی کی باتیں۔ بہت عظیم جدوجہد کے بعد، بہت قربانیوں کے بعد پھر سے تڑپ اٹھے وہ جذبے آزادی کے لیے جو کہ تسکین چاہتے تھے اس آزاد وطن کو حاصل کرنے کے بعد۔ فطرتاً انسان اچھے سے اچھے کی طرف دیکھتا ہے حالانکہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔ لیکن ہر چمکنے والی چیز اس کو متاثر کرتی ہے اور وہ اس کی طرف دیکھتا ہے فطرتاً انسان لالچی بھی ہے، بے تحاشا ہونے کے باوجود اور زیادہ کی تمنا رکھتا ہے اور اسی طرح زندگی گزرتی چلی جاتی ہے اور اس گزرتی ہوئی زندگی کے تجربات، زندگی کی مشکلات، زندگی کی خوشیاں اور غم اس کو زندہ رہنے کا قرینہ سکھاتے چلے جاتے ہیں۔

لیکن کہیں نہ کہیں کچھ جذبے، کچھ خواہشیں ادھوری رہ جاتی ہیں اور ان ادھوری خواہشوں کو جب بھی اس کو پورا کرنے کا کوئی راستہ نظر آتا ہے۔ کوئی بھی امید نظر آتی ہے تو وہ اس موقعے کو ضایع نہیں ہونے دینا چاہتا اور میرے خیال میں اگر زندگی مکمل کرنے کا موقعہ ملے تو اس کو کھونا بہت بڑی بے وقوفی ہو گی اور اس بے وقوفی کو ہم بزدلی کا نام بھی دے سکتے ہیں کہ خواہش کرنا اور اس خواہش کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ہی بہادری ہے۔ صحیح سمت، صحیح راستہ، صحیح جدوجہد ضرور مقصد حاصل کرتی ہے، اگر جذبہ سچا ہو اور یقین کامل ہو۔

ہر سال جشن آزادی ہم بہت زور و شور سے مناتے ہیں، جھنڈے، جھنڈیاں اور خوب زور و شور سے آزادی کے دن کی تقریبات۔ مگر ہر سال اس کو تہوار کی طرح منا کر خوش ہونا آزاد ملک کی ہواؤں میں سانس لینا، کیا ہمارے لیے کافی ہے؟ یا پھر کوئی نہ کوئی Goal مقرر کرنا اگلے سال تک کے لیے ہونا بھی ضروری ہے؟

میری بڑی خواہش رہی کہ ہر سال جشن آزادی کے موقعے پر ہماری گورنمنٹ کوئی نہ کوئی Goal سیٹ کرتی اور تمام قوم کو اس کو حاصل کرنے کے لیے تیار کرتی اور ہر سال ہم کچھ نہ کچھ حاصل کرتے اور پھر ان خوشیوں کو اور بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ مناتے۔ تمام قوم کے لیے ہر پل، ہر لمحہ ایک مقصد ہوتا اور تمام لوگ مل کر اس کو حاصل کرنے کے لیے اپنی اپنی efforts کر رہے ہوتے۔

مثلاً کسی سال کو تعلیم کے لیے، کسی سال کو صحت کے لیے، کسی سال کو صفائی کے لیے کسی سال کو مہنگائی کے خاتمے کے لیے وغیرہ منایا جاتا اور تمام کاموں کے ساتھ ایک نارمل گورنمنٹ کو جاری رکھتے ہوئے ایک مخصوص ’’مقصد‘‘ کو بھی مد نظر رکھا جاتا اور تمام عوام الناس کو اس میں شامل کیا جاتا، اگر ایسا ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اپنے مقاصد کو پا نہ سکتے۔

مگر ان تمام انداز فکر کے لیے عوام کے بہترین نمایندے، گورنمنٹ میں شامل ہوں، اور ان کا رابطہ عوام کے ساتھ بالکل اسی طرح کا ہو جیسے وہ اپنے گھر اور بچوں کے لیے اپنے جذبات رکھتے ہیں۔

آزادی ایک لفظ نہیں ایک پوری زندگی اس لفظ کے اندر رچی بسی ہے چاہے وہ آپ اور ہم اپنے ملک کے لیے استعمال کریں یا صرف اپنی ذات کے لیے، اپنی زندگی کے لیے استعمال کریں اور جیسے کہ ہم جانتے ہیں مثبت اور منفی جذبے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں تو یقینا ان جذبوں کو مثبت ہی رکھنا ہو گا۔

دنیا میں جب اسلام آیا اور اس کو پھیلانا شروع ہوا جو آج تک جاری ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گا، اللہ کا پیغام عوام الناس کے لیے جو دیا جاتا رہا، اللہ نے مختلف نبیوں کے ذریعے سے، مختلف کتابوں کے ذریعے سے اپنی بات ایک طریقہ زندگی، تمام انسانوں کے ایک دوسرے پر فرائض اور حقوق، اور ان کو کس طرح پورا کرنا ہے، اس کا پورا طریقہ انسانوں تک پہنچایا اور ان تمام معاملات میں اگر ہم غور کریں تو کہیں پر بھی گھٹن کا احساس نہیں، کہیں پہ بھی ایسا نہیں لگتا کہ کچھ چیزیں آپ پر تھوپی جا رہی ہیں یا زبردستی کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ انسانوں کی خواہش، ان کی ضرورتیں، ان کی عزت اور ان کے لیے مثبت طریقہ زندگی واضح انداز میں نظر آتی ہے۔

حد تو یہ ہے کہ اللہ عالیشان نے انسانوں کو ان کے فیصلے کی آزادی دی، ان کو جینے کی اور سوچنے کی آزادی دی۔

تو پھر انسان ایک دوسرے کا غلام کیوں؟ رزق کا وعدہ اللہ کا، رزق تو اللہ دیتا ہے، مقدر بھی اللہ بناتا ہے، زندگی و موت بھی اللہ دیتا ہے۔

مگر وہ علم کے ذریعے ہمیں صحیح راستہ اور سمت چننے کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ جدوجہد کرنے کا پیغام بھی دیتا ہے۔

جب اتنی آسانیاں اللہ عالی شان اپنی مخلوق کو دے رہا ہے تو پھر ہم میں، آپ میں، محکومی کیوں؟ پھر ہم میں اللہ کے سوا انسانوں کا خوف کیوں؟ پھر ہم میں بے بسی لاچارگی کیوں؟

کہیں نہ کہیں غلامانہ جذبے ہم میں موجود ہیں اس لیے یہ تمام چیزیں ہمارے اندر بس گئی ہیں ۔ اور ان تمام جذبوں سے نجات کا نام ہی آزادی ہے، کہ انسان پہلے اپنے آپ کو آزاد کرے، ان تمام خوف سے، غلامانہ جذبات سے جو شاید بچپن میں ہی ان کے دلوں میں، دماغوں میں بٹھا دیے جاتے ہیں۔

ہمارے اپنے گھروں کے رہن سہن میں بے تحاشا سختیاں، بے تحاشا روک ٹوک بچپن ہی سے شامل کر دی جاتی ہیں، والدین اپنی خوشی اور رضا کو اپنی اولادوں پر لاگو کرنا چاہتے ہیں، اپنی مرضی کی تعلیم دلانا چاہتے ہیں، اپنی سوچ کی طرح ان کو بنانا چاہتے ہیں۔ اور وہ جو خود اعتمادی اور آزادی کا جذبہ ایک آزاد سوچ کے ساتھ پنپ ہی نہیں پاتا شخصیت میں محکومیت شامل ہو گئی۔

جناب آزادی دیجیے اور آزادی حاصل کیجیے ایک بہترین زندگی کے لیے، ایک بہترین نسل کے لیے۔ اپنی سوچ رکھنے کی آزادی، تعلیم حاصل کرنے کی آزادی، کیرئیر چننے کی آزادی۔ اپنے منفی خیالات سے نجات کے لیے آزادی، لالچ سے آزادی، حسد سے آزادی۔

دوسروں کے لیے خوشیاں بانٹنے کی آزادی خوشیوں میں دکھوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے کی آزادی۔ چوری، غلاظت، قتل و غارت سے آزادی، زندہ رہنے کی آزادی۔ ایک دوسرے کو سمجھیے اور قدر کیجیے اس ملک کی، اس آزادی کی کہ جو اللہ عالیشان نے ہمیں عطا کی، پاکستان زندہ باد!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔