سنگین ہوتا ہوا سیاسی بحران

فریقین میں مذاکرات بھی ہوئے‘ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی سرگرم ہوئے اور ایک سیاسی جرگہ بھی قائم ہوا ۔۔۔


Editorial September 30, 2014
فریقین میں مذاکرات بھی ہوئے‘ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی سرگرم ہوئے اور ایک سیاسی جرگہ بھی قائم ہوا. فوٹو:فائل

YAS MARINA, ABU DHABI: ملک میں 14 اگست سے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے لانگ مارچ اور پھر اسلام آباد میں دھرنوں کے نتیجے میں جو سیاسی بحران پیدا ہوا ہے' وہ تاحال جاری ہے۔ اس بحران کو شروع ہوئے ڈیڑھ ماہ ہو رہے ہیں' اس دوران بہت سے نشیب و فراز آئے اور بعض مواقعے پر ایسا محسوس ہوا کہ یہ بحران خوش اسلوبی سے طے ہو جائے گا لیکن پھر ایسی تبدیلیاں آئیں کہ معاملہ جوں کا توں رہا۔

فریقین میں مذاکرات بھی ہوئے' جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی سرگرم ہوئے اور ایک سیاسی جرگہ بھی قائم ہوا اور اس نے کچھ تجاویز بھی دیں لیکن کچھ نہیں ہوا۔سیاسی جرگہ کی تجاویز پر کسی نے غور کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ حکومت اور دھرنا دینے والے اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے' اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سیاسی بحران اب تک جاری و ساری ہے اور اب تحریک انصاف نے ملک کے دیگر شہروں میں جلسے شروع کر دیے ہیں' چند روز پہلے کراچی میں جلسہ کیا گیا اور اگلے روز لاہور میں جلسہ کیا گیا۔ ان جلسوں میں جو تقریریں ہوئیں' ان سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ سیاسی بحران مزید گہرا ہو گیا ہے۔

پاکستان کے لیے یہ صورت حال اچھی نہیں ہے۔ اسلام آباد کے دھرنوں اور احتجاج کے نتیجے میں چین کے صدر پاکستان کے دورے پر نہیں آئے۔ وزیراعظم پاکستان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے نیو یارک گئے تو اخباری اطلاعات کے مطابق وہاں بھی تحریک انصاف کے کارکنوں نے مظاہرے کیے' پاکستان میں بھی حکومتی شخصیات کے سامنے مختلف تقریبات میں مخالفانہ نعرے بازی کی خبریں آتی رہتی ہیں'اس سے نظر آتا ہے کہ حکومت کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے جب کہ عوام بھی پریشانی کے عالم میں یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔

حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت فہم و فراست اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سیاسی بحران کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے کیونکہ سیاسی بحران کو حل کرنا سیاسی قیادت کا ہی کام ہے۔فوج اس حوالے سے اپنا موقف واضح کرچکی ہے۔ دھرنوں کے مقابلے میں پارلیمنٹ کا اجلاس بھی ہوا جو اب ختم ہو چکا ہے' اس اجلاس میں پارلیمنٹیرینز نے جمہوریت کی حمایت میں دھواں دار تقریریں کیں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے کوئی متحرک کردار ادا نہیں کیا۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اپنے طور پر کوشش کرتے رہے' کچھ اور سیاستدان بھی دھرنے والوں سے ملتے رہے لیکن ان میں سے کسی کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں تھا' ایسا لگتا ہے کہ مذاکرات کرنے والوں نے حکومت سے مینڈیٹ لینے کی کوشش ہی نہیں کی' ایسی صورت میں مذاکرات کا جو نتیجہ نکلنا تھا'سب کے سامنے آ گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پارلیمانی سیاسی جماعتیں خصوصاً حکمران جماعت اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت مذاکرات کا حصہ بنتی اور دھرنے والوں سے مذاکرات کرتی تو حالات میں تبدیلی ممکن ہوسکتی تھی لیکن پارلیمانی جماعتوں کی قیادت نے بھی ڈیڈ لاک توڑنے کی کوشش نہیں کی بلکہ دھرنے والوں پر تنقید شروع کر دی جس کے نتیجے میں بحران زیادہ سنگین ہو گیا ہے' اب پیپلز پارٹی نے کراچی میں 18 اکتوبر کو قوت کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ ملک میں جاری سیاسی بحران مزید بڑھے گا کیونکہ اسے حل کرنے کی جانب معاملات بڑھتے نظر نہیں آ رہے۔سیاسی قیادت اپنے اپنے حصار میں قید ہے اور وہاں سے نکلنے کی کوشش بھی نہیں کررہی۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ملکی معیشت دن بدن نیچے جارہی ہے' ملک میں کاروباری سرگرمیاں ڈھپ ہو رہی ہیں۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد کے لیے حالات زیادہ خراب ہیں۔مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ادھر حکومت کے لیے انتظامی سطح پر بھی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں' عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں یہ تاثر جا رہا ہے کہ یہ ایسا ملک ہے جس کی حکومت کے خلاف ڈیڑھ ماہ سے احتجاج ہو رہا ہے' لہٰذا حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت اپنی ضد اور انا کو پرے رکھ کر ہوش مندی کا مظاہرہ کرے اور اس بحران کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرے۔

جمہوریت کو بچانے کے لیے ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔حکومت اور اس کی حامی جماعتوں کو حالات کی نزاکت کا احساس ہونا چاہیے۔ ادھر تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی قیادت بھی ہوش مندی کا مظاہرہ کرے اور اپنے رویے میں لچک پیدا کرے۔ فریقین چاہیں تو کچھ لو اور کچھ دو کے اصولوں کے تحت معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ وقت تیزی سے گزرہا ہے۔ سیاسی قیادت کو واضح فیصلے کرنا ہوںگے۔ انھیں یاد رہنا چاہیے کہ اگر یہ بحران حل نہ ہوا اور فریقین اپنی اپنی جگہ پر ڈٹے رہے تو پھر جمہوریت کے لیے نقصان ہی نقصان ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں