ہنگو میں آئی ڈی پیز کیمپ میں دھماکا

اس کیمپ میں اورکزئی ایجنسی اور کرم ایجنسی کے متاثرین 2010سے رہائش پذیر ہیں ...


Editorial September 30, 2014
اس کیمپ میں اورکزئی ایجنسی اور کرم ایجنسی کے متاثرین 2010سے رہائش پذیر ہیں . فوٹو: فائل

صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ہنگو میں اورکزئی ایجنسی کے آئی ڈی پیز کیمپ توغ سرائے محمد خواجہ میں اتوار کو دھماکے سے 3بچوں اور 2 خواتین سمیت 9 افراد جاں بحق اور14زخمی ہو گئے۔ بارودی مواد موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا۔ صدر ممنون حسین' وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور عمران خان' آصف علی زرداری' سراج الحق اور دیگر نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے ہلاکتوں پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اس کیمپ میں اورکزئی ایجنسی اور کرم ایجنسی کے متاثرین 2010سے رہائش پذیر ہیں جب کہ اب شمالی وزیرستان کے متاثرین بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ آئی ڈی پیز کے کیمپ میں پہلی بار دھماکا ہوا جو تشویشناک امر ہے۔ آئی ڈی پیز کا شمار جنگجو گروپوں میں نہیں ہوتا وہ تو خود متاثرین ہیں بھلا ان کی کسی سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔ یہ دھماکا کن لوگوں نے کیا اور وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے اس کا پتہ تو تحقیقات کے بعد ہی چلے گا۔ اطلاعات کے مطابق ضلع ہنگو میں حالیہ چند ہفتوں میں پولیس اہلکاروں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، پولیس حکام کے مطابق یہ واقعات شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کا ردعمل بھی ہو سکتے ہیں ۔

جس کا ایک عرصے سے امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے اور شوال میں تازہ فضائی حملوں میں 15 دہشت گرد ہلاک ہو گئے جن میں غیر ملکی بھی شامل ہیں، بمباری میں دہشت گردوں کے 5 ٹھکانے بھی تباہ ہوئے۔ اگرچہ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو تباہ اور ان کے بڑے حملے کرنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا گیا ہے لیکن دہشت گرد عام نوعیت کی کارروائیاں کر کے اپنے وجود کا احساس دلا رہے ہیں۔ دوسری جانب اطلاعات کے مطابق جنوبی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے میں ملا نذیر گروپ کے دو کمانڈر ہلاک ہو گئے، جنوبی وزیرستان میں اس سال یہ پہلا ڈرون حملہ ہے۔ پاکستان نے اس حملے کو اپنی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا خاص طور پر اس کے قبائلی علاقے اسلحے کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں، وہاں جدید سے جدید ہتھیار بآسانی دستیاب ہے۔ جب تک اس خطے کی قبائلی حیثیت ختم کرکے اسے بندوبستی علاقے میں تبدیل کے علاوہ اسلحہ سے پاک نہیں کیا جاتا یہاں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ دوسری جانب افغانستان کی سرحد سے بھی دہشت گرد داخل ہو کر کارروائیاں کر رہے ہیں لہٰذا سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی کے انتظامات کو مزید موثر بنانا ہو گا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کوئی بھی حکومت تنہا دہشت گردی پر قابو نہیں پا سکتی اس کے لیے ناگزیر ہے کہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں دہشت گردی کو ملکی سالمیت کے لیے بنیادی خطرہ قرار دیتے ہوئے حکومت کا خلوص نیت سے ساتھ دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں