جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا عزم

ملک کو درپیش مسائل اور خطے کی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کا بیان قومی امنگوں کی حقیقی عکاسی کرتا ہے ۔۔۔


Editorial October 02, 2014
ملک کو درپیش مسائل اور خطے کی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کا بیان قومی امنگوں کی حقیقی عکاسی کرتا ہے. فوٹو:فائل

بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ پاک فوج کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے، روایتی اور غیر روایتی خطرے دونوں سے کامیابی سے نمٹنے کے ساتھ پاک فوج کو اس کی کامیابیوں اور قربانیوں کیوجہ سے دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انھوں نے یہ بات منگل کو کھاریاں کے دورے کے دوران قومی انسداد دہشتگردی مرکز(NCTC) کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر کہی ۔

ملک کو درپیش مسائل ، دہشت گردی کے عالمی عفریت و خطے کی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کا بیان قومی امنگوں کی حقیقی عکاسی کرتا ہے ۔ اس میں جہاں پاک فوج کی حربی صلاحیتوں ، دشمن سے مقابلہ کی مکمل تیاریوں ، اور جدید جنگی تربیت ، مسابقت اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے قوم کو زمینی حقائق سے آگاہ کیا گیا ہے وہاں قومی یکجہتی، ملکی سالمیت اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے عسکری اقدامات اور ادارہ جاتی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے عالمی قوتوں کے سامنے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور اس کے فرنٹ لائن کردار کو بھی نمایاں کیا گیا ہے، آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان کے مطابق این سی ٹی سی بھرپور صلاحیت کے ساتھ ایک جدید مرکز ہوگا جہاں پر ہر قسم کی دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے جوانوں کو معیاری تربیت دی جائے گی ۔

آرمی چیف نے کہا کہ چونکہ ہمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ملکر ملک کے ہر کونے سے دہشتگردی کے خلاف لڑنا ہوگا اس لیے پاک فوج اس مرکز میں پیرا ملٹری فورس، پولیس، کانسٹیبلری اور لیویز کو تربیت دے گی ۔ دنیا پاک فوج کے ذمے دارانہ کردار کا اعتراف کرچکی ہے ، ابھی حال میں ایک عالمی سروے میں آئی ایس آئی کو دنیا کی طاقتور خفیہ ایجنسیوں میں ٹاپ پوزیشن پر رکھا گیا ۔ یوں دہشت گردی ، داخلی شورش اور بد امنی کی وارداتوں سے ریاستی نظم و نسق اور عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار اہمیت کا حامل ہے وہاں فوج سرحدوں کی نگہبان کہلاتی ہے۔ یہ نگہبانی حکومت کو گڈ گورننس کے لیے فری ہینڈ دیتی ہے۔ بشرطیکہ حکمراں اس سے سیاسی و معاشی استحکام کو یقینی بنائیں۔ وہ بین الاقوامی حالات اور مشرق وسطیٰ میں عراق و شام میں داعش کی خوں آشامیوں اور امریکی دخل اندازی کے ''انٹرونشنسٹ '' جنگی نتائج پر نظر رکھیں کیونکہ دہشت گردی کے خلاف امریکی پالیسی نت نئے رنگ میں سامنے آرہی ہے ۔

مشہور مبصر ہاورڈ وین نے امریکی حکمت عملی پر کیا دلچسپ طنز کیا ہے کہ ''آپ کس طرح وار آن ٹیرر کی بات کرتے ہیں جب کہ وار خود ٹیررازم ہے ۔''صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ قبائلی علاقوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال کا ذمے دار پاکستان نہیں جب کہ بدامنی کے مکمل خاتمے تک قبائلی علاقوں میں آپریشن جاری رہے گا، ایوان صدر میں چیئرمین ہلال احمر کی قیادت میں وفد سے بات کرتے ہوئے صدرممنون نے کہا کہ ملک میں انتہا پسندوں کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں پولیو مہم چلانے میں دشواری کا سامنا ہے، اس لیے عالمی برادری پاکستان پر پابندی لگانے کے بجائے ہمدردانہ رویہ اختیار کرے ۔

سیلاب سے متاثرہ افراد اور تھر کے عوام کی خدمت کے لیے ہلال احمر نے قابل قدر منصوبے شروع کیے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہے جو دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ۔ صدر مملکت کے ارشادات کی روشنی میں ملک کو داخلی خطرات سے بچانے کی ترجیح اولین ہونی چاہیے۔ بنیادی طور پر حکمرانوں کو دہشت گردی کے اسباب و عوامل، ، زمینی حقائق اور عسکریت پسندی کے ابھار پر نظریں مرکوز کرنی چاہیے، محض ظاہری علامتوں کو نہیں بلکہ دہشت گردی و عسکریت پسندی کے مرض کی درست تشخیص اور اس کے موثر سماجی ، سیاسی، اقتصادی اور نفسیاتی علاج پر توجہ دینا ہوگی ۔

عوام کو درپیش مسائل کے حل اور ترقی و معاشی آسودگی کے لیے جاری منصوبوں کی جلد تکمیل میں بریک تھرو کیجئے ۔ دھرنوں کا کوئی حل تلاش کیجئے ، بات چیت کے ایک نہیں کئی در کھول دیجیے، سیاسی و سماجی بیداری کا راستہ نہ روکیے ۔ عوام کے قریب آجائیے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی مسائل اور دیگر اہم امورکو نمٹانے میں سرعت دکھائیے ،مسائل کے حل میں دلچسپی اور دردمندی کا مظاہرہ ہی اچھی طرز حکمرانی کہلاتی ہے ۔ شہریوں کی بنیادی ضروریات سے محرومی انھیں مشتعل رکھتی ہے، وہ پھر فرد اور ریاست کے باہمی تعلق پر بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجاتے ہیں، یہ دوری پیدا کرتی ہے جو تباہ کن ثابت ہوتی ہے اور ہو بھی رہی ہے، ادارہ جاتی انحطاط کو دیکھنے کے لیے چشم بینا کی ضرورت ہے ، نظم حکومت میں جا بجا تساہل ، بے نیازی ، بے حسی اور مجرمانہ غفلت کی سزا کو جب فطرت معاف نہیں کرسکتی تو عوام کیسے برداشت کریں گے۔

اس لیے آرمی چیف کے بیان میں دو طرفہ پیغام ہے، ایک پاکستان کے بد خواہوں اور دشمنوں کے لیے جن کی آنکھوں میں وطن عزیز کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے،اور دوسرا حکمرانوں کے لیے ہے کہ وہ ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے باب میں کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا نہ ہوں ۔ اس کے لیے مسلح افواج چوکس و مستعد ہیں ۔ اہل اقتدار یہ ادراک کرلیں کہ بے انصافی ، بیروزگاری ، غربت ، جہالت اور پسماندگی ختم ہوجائے تو وطن عزیز کو داخلی بد امنی ، بے یقینی اور خارجی خطرات سے یقیناً نجات ملے گی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں