سیلاب سے بچاؤ عملی کام کی ضرورت

سیلاب کی روک تھام کے لیے قومی کمیٹی کی تشکیل اہم ہے ...


Editorial October 03, 2014
سیلاب کی روک تھام کے لیے قومی کمیٹی کی تشکیل اہم ہے فوٹو : اے ایف پی/ فائل

SUKKUR: وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بدھ کو پنجاب کے ایک شہر وزیر آباد میں سیلاب متاثرین میں امدادی چیک تقسیم کرنے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ سیلاب سے بچاؤکے لیے بھرپور حکمت عملی وضع کی جائے' مستقبل میں سیلاب جیسے خطرات کو روکنے کے لیے اربوں،کھربوں روپے بھی خرچ کرنے پڑے تو کریں گے' سیلاب کے بعد کی صورتحال کو دیکھ کرہم نے طے کر لیا ہے کہ مستقبل میں سیلابوں سے کس طرح نمٹنا ہے۔

سیلاب کی روک تھام کے لیے قومی کمیٹی کی تشکیل اہم ہے جو سیلاب سے نمٹنے کے لیے سفارشات مرتب کرے گی، محدود وسائل ہونے کی وجہ سے ہمیں تھوڑی مشکلات پیش آ رہی ہیں' ہمیں کم پیسے ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ یہ سوچنا پڑتا ہے کہ پیسے پہلے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے باعث نقل مکانی کر نے والے لوگوں پر یا متاثرین سیلاب پر خرچ کیے جائیں؟ ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ پیسے بجلی کے کارخانے لگانے کے لیے خرچ ہونے چاہئیں یا پھر تعلیم، علاج ومعالجے اور اسپتالوں پر فنڈز خرچ کیے جائیں کیونکہ ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ سب پر اکٹھا خرچ کیا جائے۔

وزیراعظم محمد نواز شریف نے مستقبل میں سیلاب کی روک تھام کے لیے قومی کمیٹی کی تشکیل کی جو بات کی ہے وہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں سیلاب غیر متوقع طور پر نہیں آیا بلکہ یہ ہر سال آتا ہے۔ 2010ء میں آنے والے سیلاب نے ملک میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی تھی جس کے بعد مستقبل میں سیلاب کی روک تھام کے لیے سفارشات مرتب کی گئی تھیں لیکن ان سفارشات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو حکمران اس کے حل کے لیے سرگرم ہو جاتے اور بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر چند دنوں بعد جب معاملات معمول پر آتے ہیں تو وہ اس مسئلے کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ مسلم لیگ ن گزشتہ کئی عشروں سے حکومت میں چلی آرہی ہے۔

میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں انھیں ملک کے مسائل کا بخوبی ادراک ہے اس بار بھی حکومت اور انتظامیہ کو یہ معلوم تھا کہ ملک میں سیلاب آنے والا ہے لیکن اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اگر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی پیش بندی کی جاتی تو جو تباہی اور بربادی ہوئی ہے اس پر کسی حد تک قابو ضرور پایا جا سکتا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمسایہ ملک نے سیلاب کی اطلاع تاخیر سے دی۔ حکومت کو یہ معلوم ہے کہ بھارت ہر سال سیلاب کے موقع پر زائد پانی چھوڑ دیتا ہے جس سے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے اس لیے بھارت کا کردار سب کے سامنے ہے' اپنی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت پر الزام تراشی کرنے کے بجائے اس مسئلے کے حل کے لیے مربوط حکمت عملی وضع کی جانی چاہیے۔

وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ حکومت کے پاس وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں لیکن ان مسائل کو حل کرنا بھی تو حکومت کی ذمے داری ہے مجبوریاں ظاہر کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ ن نے مسائل حل کرنے کے نام پر ہی اقتدار حاصل کیا تھا۔ اب جب مسائل سامنے آئے ہیں تو کسی بھی مجبوری کو بیان کرکے مسائل سے راہ فرار اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کو مستقبل میں سیلاب کی روک تھام کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا کیونکہ اس بار آنے والے سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے وہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مستقبل میں آنے والے سیلاب اس سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔

سیلاب کے باعث ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں جس سے نہ صرف زرعی شعبہ بری طرح متاثر ہوا بلکہ صنعتی شعبے کو بھی شدید دھچکا لگا اور ہزاروں لوگوں کا روز گار متاثر ہوا۔ پاک فوج کے جوانوں نے سیلاب متاثرین کی جس جذبے اور بڑے پیمانے پر مدد کی وہ قابل تحسین ہے۔ سیلاب سے کتنی تباہی ہوئی اس کا تعین ابھی ہونا باقی ہے۔ اس لیے حکومت کو اپنی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے سیلاب کی روک تھام کو اولین درجے پر رکھنا ہو گا کیونکہ اربوں روپے کے ترقیاتی کام سیلاب کی نذر ہو جاتے اور پھر سیلاب متاثرین کی بحالی پر قومی دولت کا ایک خطیر حصہ صرف ہو جاتا ہے۔ اگر یہی رقم ملکی ترقی پر خرچ ہو تو خوشحالی کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔

چین اور بھارت کی مثال سب کے سامنے ہے، چین میں بھی بہت زیادہ سیلاب آتے تھے اس نے اس مسئلے کے حل کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی اوراس پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن پاکستان میں سیلاب پر قابو پانے کے لیے کمیٹیاں تو بنتی رہیں مگر اس پر عملدرآمد کی کبھی نوبت نہیں آئی۔ تشویش ناک امر ہے کہ سیلاب کا پانی تباہی مچانے کے بعد ضایع ہو جاتا ہے اور اس کے چند ہفتے بعد ملک میں فصلوں کی کاشت کے لیے پانی کی قلت کی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں۔ حکومت کو سیلاب کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر ڈیم' بیراج اور آبی ذخائر تعمیر کرنے ہوں گے صرف دعوے کرنے اور کمیٹیاں تشکیل دینے کے بیانات سے بات نہیں بنے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں