گڈ بائے ٹیچرز
پوری دنیا کی طرح ہمارے ملک میں بھی کئی برس سے یہ دن منایا جاتا ہے ۔۔۔۔۔
اساتذہ کے عالمی دن پر جب ہر جانب سے مبارک باد کی صدائیں بلند ہورہی ہوں، دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے ہوں ، عقیدت و احترام کے مارے بڑی بڑی قد آور شخصیات بھی بوجھل ہوئی جارہی ہوں، چہار سو شکریہ اور سلام کی واہ واہ ہو اور اساتذہ خود بھی خوشی سے پھولے نہ سما رہے ہوں، ایسے دلآویز اور خوش کن لمحات میں خدا حافظ اساتذہ یا گڈ بائے ٹیچرز کی صدا ناگوار سی محسوس ہوسکتی ہے، لیکن کیا کیا جائے، حقیقت کی دنیا میں نظر آنے والے واقعات اور حالات اب یہی کچھ کہنے بلکہ علی الاعلان دہرانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ اساتذہ جن کے لیے یہ سب اہتمام ہوئے تھے، بڑی تیز رفتاری سے عنقا ہوئے جا رہے ہیں۔
پوری دنیا کی طرح ہمارے ملک میں بھی کئی برس سے یہ دن منایا جاتا ہے اور تقریباً ہر بارکسی نہ کسی بہانے مغربی دنیا کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ بیش تر اخبار نویس،کالم نگار، مقرر یہاں تک کہ دانشور قبیلے کے افراد بھی محترم اشفاق احمد، اٹلی اور وہاں کے کسی جج کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔ ہمیں آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس واقعے سے وہ اساتذہ کے احترام کا نتیجہ کیسے اخذ کر لیتے ہیں۔اصل میں تو اس واقعے سے وہاں کے معاشرے اور عدالتوں میں کام کرنے والوں کے لیے احترام اور عقیدت کو نمایاں ہونا چاہیے، جس کے باعث ایک بزرگ استاد توہین آمیزسلوک سے محفوظ رہے۔ اپنے معاشرے میں رونما ہونے والے سیکڑوں واقعات میں سے ایک واقعہ سنیے جو آج سے بیس تیس سال پہلے پیش آیا۔
وفاقی کالج کے ایک طالب علم پر فائرنگ کے الزام میں عدالت میں مقدمہ دائر ہوا تو پیشی پر مدعی (پرنسپل) اور گواہوں (اساتذہ، بشمول راقم الحروف) کو حاضر ہونا پڑا۔ یہ عمل کئی بار دہرایا گیا اور ہم لوگ ہر بار دیگر قیدیوں اور مجرموں کے درمیان اپنا نام پکارے جانے پر حاضر ہونے کے منتظر رہتے۔ وہ پرنسپل مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ممتاز طالب علم تھے، جو بابائے اردو مولوی عبدالحق کے رفقا میں شامل تھے۔ قیام پاکستان سے کئی سال پہلے ہجرت کرکے اس خطے میں آچکے تھے۔ خواجہ آشکار حسین ان کا نام تھا اور یہ اپنی وضع قطع (شیروانی، ٹوپی) سے سب سے منفرد نظر آتے تھے۔
غضب خدا کا کہ کسی جج، وکیل یا کارکن نے اساتذہ کی بے توقیری پر کوئی توجہ نہ دی۔ آخر کچھ دن بعد اسی طالب علم کی غیرت جاگی اور اس نے مصالحت نامہ داخل کراکے اپنے پرنسپل اور اساتذہ کو مزید خواریوں سے بچا لیا۔ یقیناً یہ کلیہ درست نہیں کہ اساتذہ اپنی رسوائی اور تضحیک کا باعث خود ہیں بلکہ غور سے دیکھیں تو اور بھی بہت سے عوامل نظر آتے ہیں جنھوں نے اساتذہ کو تاریکی اور کاہلی کا ذمے دار قرار دینے کی ایسی منصوبہ بندی کی ہے کہ خود اساتذہ بھی حیران ہیں۔
دور کیوں جائیں حال ہی میں اخبارات کے کالموں اور ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر کراچی میں دھرنا دیے ہوئے سیکڑوں مرد و خواتین اساتذہ کا چرچا ہوتا رہا۔ جس دن یہ بلاول ہاؤس کے قریب پہنچے اور واٹر کیننگ سے ان کی تواضح کی گئی، وہ دن خاصا افسوسناک سمجھاگیا۔ مصیبت یہ ہے اس واقعہ کا کوئی سرا کسی کی گرفت میں نہیں آرہا۔ جعلی اساتذہ کی بڑی بڑی سرخیاں اساتذہ کو تو بدنام کررہی ہیں، لیکن جن لوگوں نے یہ سارا تماشا کیا ہے، ان کی عزتیں محفوظ ہیں۔
تدریس کا شعبہ کوئی پیشہ (Profession) ہے یا اسے جذبہ اور جنون (Passion) ہونا چاہیے، یہ ایک بحث ہے، جو کئی دن سے جاری ہے۔ ہم اگر اپنی مشرقی روایات کے تناظر میں فیصلہ کرنا چاہیں تو بیک وقت ان دونوں اوصاف کی موجودگی لازم ہوجاتی ہے تب ہی اسے پیغمبری کام کہا جاتا ہے اور اس سے وابستہ افراد کے لیے احترام کا درس دیا جاتا ہے۔ ہمارے اساتذہ فرشتے نہیں، بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ جب سے معاشرے میں دولت کی چکا چوند پھیلی ہے لوگوں کی آنکھیں خیرہ ہو چلی ہیں اس عالم میں فرشتے بھی اساتذہ کی صفوں میں شامل ہونے سے گریزاں ہوں گے۔ اس پہ غضب یہ ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اساتذہ بھی اپنے فرائض کی ادائیگی کو رسمی کارروائی سے زیادہ اہمیت نہیں دے رہے۔ ایسا کیوں ہے آئیے تھوڑا سا اور جائزہ لیتے ہیں۔
ہمارے اساتذہ کئی دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک طبقہ تو وہ ہے صرف کام سے کام رکھتا ہے، یعنی اپنے ادارے میں جانا، حاضری لگانا، کلاس میں طلبا موجود ہوں تو انھیں پڑھا دینا، پابندی سے تنخواہ وصول کرنا۔ دوسرا دھڑا وہ ہے، جو خود دھڑے بندیوں کو فروغ دے کر انتظامیہ اور نگرانی کرنے والوں کو اتنا ہراساں کردیتا ہے کہ وہ اپنی کوتاہیاں چھپانے کے لیے ان کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ تیسرا گروہ ان دونوں کے بین بین چلتا ہے۔ عملیت پسندوں کا مائنڈ سیٹ رکھنے والے یہ اساتذہ اوپر جانے کی کوشش میں سب کو راضی رکھتے ہیں اور جب خود کسی عہدے پر فائز ہوجاتے ہیں تو پیچھے مڑکر نہیں دیکھتے۔ ہر بہانے سے آگے بلکہ اور آگے جانا ان کا مطمع نظر ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے یہی وہ لوگ ہیں جو ماہر تعلیم کے اعزاز سے نوازے جاتے ہیں، درس و تدریس سے وابستہ اصل شخصیات کو ان ہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پبلک سیکٹر میں عہدوں کی کثرت اور عہدیداروں کی فراوانی نے ہمارے معاشرے میں ماہرین تعلیم کو بھی فروغ دیا ہے۔ ان میں بے شمار ایسے بھی ہیں، جو لگے بندھے طریقوں سے کام کرتے ہیں، البتہ اپنے عہدوں کے بچانے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کرتے رہتے ہیں۔
شاید اسی لیے انھیں ''ماہرین'' گردانا جاتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ایسے ہی ایک ماہر تعلیم نے وفاقی وزیر تعلیم کو یہ بتایا کہ ان کے ادارے کی سالانہ گرانٹ اسی کروڑ روپے ہے، جب کہ صرف ملازمین کی تنخواہوں پر سالانہ ایک سو بیس کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ سب نے ان سے ہمدردی کا اظہار کیا، لیکن کسی نے یہ استفسار کرنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ چالیس کروڑ کا خسارہ کیسے پورا کرلیتے ہیں؟ ملتان میں پروفیسر کا قتل اور کراچی میں تسلسل سے اساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ اس تعداد کو اور محدود کرتی جارہی ہے۔ غضب یہ ہے کہ کچھ اس بنیاد پر ماردیے جاتے ہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلک کے ہیں۔
پاکستان میں اساتذہ کی ایک بڑی تعداد دینی مدارس سے بھی وابستہ ہے اور اتنی ہی بڑی تعداد نجی شعبہ کے تعلیمی اداروں (اسکولوں اور کالجوں) میں بھی۔ عجیب اتفاق ہے کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں اور محنت کے باوجود انھیں وہ مقام حاصل نہیں، جو ان اداروں کے منتظمین اور مالکان کو حاصل ہے۔ (ملٹی نیشنل ٹائپ کے ادارے اس فہرست میں شامل ہیں) ہر ادارے کا مالک ماہر تعلیم گردانا جاتا ہے، لیکن کلاس روم میں تعلیم دینے والے اساتذہ کسی شمار میں نہیں آتے۔ ان سب کی ذمے داریوں، اوقات کار ، ملازمت کے قواعد، مشاہرہ کا تعین اور آئندہ کے سارے اختیارات مالکان کو حاصل ہیں۔ اس لیے کہ انھوں نے کروڑوں روپے سے یہ کام شروع کیا ہے اور حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے سرمایہ، اثاثوں اور مفادات کا تحفظ کرے۔ یوں اساتذہ مکمل طورپر نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ انھیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ سوشل سیکیورٹی نام کا کوئی ادارہ یا اولڈ ایج بینیفٹ نام کی کوئی اسکیم ان کے مفادات پر توجہ دے سکتی ہے۔
مختلف تعلیمی پالیسیوں میں اساتذہ کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، شاید پالیسی سازوں کا مقصد یہی تھا اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔ طرفہ تماشہ ہے کہ اساتذہ بھی خود احتسابی کے بجائے خود نمائی کے اسیر ہوکر رہ گئے ہیں ۔ کام کم اور مراعات زیادہ کو انھوں نے اپنا مطمع نظر بنا رکھا ہے۔ بہت کم ہیں، جنھیں اپنی بے قدری اور بے توقیری کا احساس ہے اس کیفیت میں تبدیلی کوئی اور نہیں بلکہ اساتذہ خود ہی لاسکتے ہیں۔