مسافر کوچز میں دھماکے

ہماری پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے تخریب کاری کے واقعات پر قابو پانے کے لیے ابھی تک روایتی طریقے اپنائے ہوئے ہیں


Editorial October 04, 2014
ہماری پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے تخریب کاری کے واقعات پر قابو پانے کے لیے ابھی تک روایتی طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔ فوٹو؛ ایکسپریس نیوز/فائل

پشاور اور گلگت میں مسافر کوچز میں دھماکوں کے نتیجے میں 10 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ گزشتہ چند روز سے ملک میں تخریب کاری اور بم دھماکوں کے افسوسناک واقعات کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا ہے۔

عیدالاضحی کی آمد آمد ہے ایسے موقع پر تخریب کاری کے واقعات کا مقصد ملک میں انارکی اور عوام میں خوف و ہراس پھیلانا ہے۔ اس موقع پر ہزاروں افراد اپنے علاقوں کا رخ کرتے ہیں جس کے باعث ٹرینوں' بسوں' کوچز اور ویگنوں میں مسافروں کے رش میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ بازاروں اور مارکیٹوں میں عید کی خریداری کے لیے بھی گہما گہمی بڑھ جاتی ہے۔ ایسے موقع سے تخریب کار فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہجوم میں ان پر نظر رکھنا مشکل امر ہے۔

اس وقت جب مسافروں کے رش میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے انتظامیہ اور سیکیورٹی اداروں کو تخریب کاری کے واقعات کو روکنے کے لیے خصوصی انتظامات کرنا ہوں گے کیونکہ مزید ایسے روح فرسا اور المناک واقعات کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ بسوں اور کوچز کے علاوہ مسافر اڈوں پر بھی تخریبی مواد کا سراغ لگانے کے لیے خصوصی آلات نصب کیے جانے چاہئیں۔

صوبہ خیبرپختونخوا اور کوئٹہ کے علاقے ایک عرصے سے شرپسندوں اور تخریب کاروں کا خصوصی نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اگرچہ تخریب کاری کے واقعات کو روکنا ایک مشکل امر ہے لیکن ناممکن بھی نہیں۔ ہماری پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے تخریب کاری کے واقعات پر قابو پانے کے لیے ابھی تک روایتی طریقے اپنائے ہوئے ہیں جب کہ تخریب کار اور شرپسند عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لیے جدید سے جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ پولیس اور سیکیورٹی ادارے بھی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کریں ورنہ تخریب کاری کے واقعات کو روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ فوج کے آپریشن ضرب عضب شروع کرنے کے فوری بعد تخریب کاری کے واقعات میں خاطر خواہ کمی ہوگئی ہے اور تخریب کار کمزور پڑ گئے ہیں۔

فوج نے ان کا کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم اور تخریب کاری کا سامان بنانے والی فیکٹریاں بھی تباہ کر دیں تاہم بم دھماکوں کے حالیہ واقعات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ تخریب کار اپنی کارروائیوں کے لیے خود کو پھر سے منظم کر رہے ہیں جو ایک تشویشناک امر ہے۔ مبصرین کے مطابق ملک بھر میں تخریب کاروں اور شرپسندوں کے باہمی رابطے موجود ہیں اور وہ کسی بھی علاقے میں کارروائی کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں جس کے باعث تخریب کاری کے واقعات رکنے میں نہیں آرہے۔ ایسے حالات میں ناگزیر ہے کہ ملک بھر میں پولیس، تمام سیکیورٹی اداروں اور ایجنسیوں کے درمیان باہمی رابطے کا نظام مربوط بنایا جائے جب تک ایسا نہیں کیا جاتا تخریب کار عناصر کا قلع قمع نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے اپنی جان پر کھیل کر درجنوں تخریب کاروں کو گرفتار کیا ہے مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک ملک میں ان کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جسے قانون کی گرفت میں لانا ضروری ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پولیس کارروائی میں بعض سقم کے باعث شرپسند عناصر اور تخریب کار عدالتوں سے رہا ہوجاتے ہیں جس کے باعث تخریب کاری کے واقعات پر قابو پانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں، ارباب اختیار کو اس مسئلے کی جانب بھی توجہ دینی ہو گی کہ جو تخریب کار گرفتار ہو جائیں وہ کسی بھی صورت عدالتوں سے رہا نہ ہوں بلکہ انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ علاوہ ازیں جمعرات کو بنوں کے علاقے جانی خیل میں سرچ آپریشن کے دوران شدت پسند عناصر نے سیکیورٹی فورسز پر حملہ کر دیا، جوابی فائرنگ سے چار شدت پسند مارے اور چار کو گرفتار کر لیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق گرفتار شدگان میں اہم طالبان کمانڈر بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بم ڈسپوزل یونٹ پشاور نے بجلی کے ٹاورز کے ساتھ نصب پانچ پانچ کلو گرام وزنی تین بم ناکارہ بنا دیے' اسی طرح ایک اور کارروائی میں حیات آباد میں موٹر سائیکل پر نصب دس کلو گرام ریموٹ کنٹرول بم بھی ناکارہ بنا دیا گیا۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں تخریب کار بڑے پیمانے پر سرگرم ہیں اور وہ تخریبی مواد ایک جگہ سے دوسری جگہ بآسانی لا اور لے جا رہے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ تخریب کاروں کو عوام کے بعض حلقوں کی اعانت حاصل ہے کیونکہ جب تک اندرون خانہ مدد حاصل نہ ہو تخریب کار اتنے بڑے پیمانے پر کامیاب نہیں ہو سکتے۔ حکومت تنہا تخریب کاری کے ناسور کو جڑ سے نہیں اکھاڑ سکتی اس عفریت سے نمٹنے کے لیے لازمی ہے کہ مذہبی اور سیاسی حلقوں کی بھی مدد حاصل کی جائے اور گراس روٹ لیول پر یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ تخریب کار اس ملک اور عوام کے دوست نہیں دشمن ہیں جب تک ان کا قلع قمع نہیں کیا جاتا ملک میں نہ امن ہی قائم ہو سکتا ہے اور نہ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ ہی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ تخریب کار کسی کے خیر خواہ نہیں ہوتے بعض اوقات وہ اپنے سپورٹرز اور حامیوں کو بھی نشانہ بننے سے نہیں ہچکچاتے۔ وہ حلقے جو کسی بھی نظریے کی بنیاد پر تخریب کاروں اور شر پسندوں سے ہمدردی رکھتے ہیں انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ دانستہ یا نادانستہ آگ سے کھیل رہے ہیں جس سے وہ خود بھی جھلس سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں