خطے میں امن کی بے تاب تمنا

وزیراعظم نواز شریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھی مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیا۔


Editorial October 13, 2014
اب تک لائن آف کنٹرول پر20جب کہ ورکنگ باؤنڈری پر22مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی، فوٹو فائل

PESHAWAR: پاکستان نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ کشمیر کے تنازعے کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے، کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے، وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بانکی مون کے نام خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے گزشتہ ایک ہفتہ سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر اشتعال انگیزی اور دانستہ گولہ باری جاری ہے جو سیز فائر کی خلاف ورزی ہے ۔

اقوام متحدہ کو پیش کیے خط میں زمینی حقائق، بھارتی جنگی عزائم،اور کنٹرول لائن پر بلاجواز کارروائیوں کی جو تفصیل دی گئی ہے اسے دنیا کا کوئی عسکری مبصر اور ذی شعور دانشور جھٹلا نہیں سکتا، یہ خلوص پر مشتمل سفارت کارانہ معروضات اور سیاسی سطح پر خیر سگالی اور سنجیدگی کا ری مائنڈر ہے جس کا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے سیاسی و عسکری مشیروں کو قدرے تحمل و بردباری سے مطالعہ کرنا چاہیے ۔

یہ مودی سرکار کی طرح کوئی جذباتی الٹی میٹم نہیں بلکہ بھارتی حکومت کے تازہ ترین افسوسناک سیاسی رویے، مودی کے مسلسل تند و تیز بیانات سے پیدا شدہ خطے کو درپیش ہولناک خطرات اور غیرضروری جنگجوئی کے ناقابل بیان مضمرات سے متنبہ کرنے کی ایک ٹھوس دستاویز ہے ، مزید براں موجودہ تزویراتی صورتحال پر مبنی پاکستانی خط کے مندرجات فکر انگیز اور چشم کشا ہی نہیں بلکہ بھارتی حکمرانوں سمیت عالمی برادری کے لیے بھی اس میں ایک امن بھرا پیغام موجود ہے ۔

پاکستانی مشیر کے مطابق ان کے ملک کا واضح موقف یہ ہے کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود دیرینہ حل طلب تنازعات میں سے ایک ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں واضح طور پر کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیتی ہیں جن پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ کئی دہائیوں سے پاکستان یاددہانی کرا رہا ہے کہ اقوام متحدہ خطے میں پائیدار امن اور سیکیورٹی کے مفاد میں اپنے وعدے کی تکمیل یقینی بنائے۔ یاد رہے وزیراعظم نواز شریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھی مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرے ۔ لیکن بدقسمتی سے بھارت کی جانب سے سنجیدہ باہمی مذاکرات کی خواہش کے برعکس پالیسی اختیار کی گئی۔ 25اگست کو کسی وجہ کے بغیر سیکریٹری خارجہ مذاکرات ملتوی کردیے گئے ۔

اب بھارت ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر صورتحال کشیدہ کررہا ہے ، جب کہ ماضی میں ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز کے مابین ہاٹ لائن پر بات چیت میں کنٹرول لائن کے تقدس کو پامال نہ کرنے پر اتفاق رائے بھی ہوتا رہا ۔ مگر بھارتی کارروائیاں جاری رہیں جب کہ مسلسل گولہ باری اور فائرنگ سے پاکستانی علاقے میں سول آبادی نشانہ بنی ۔ اب تک لائن آف کنٹرول پر20جب کہ ورکنگ باؤنڈری پر22مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی جس سے12شہری شہید،52شہری اور9فوجی زخمی ہوئے ۔ جون سے اگست 2014 تک لائن آف کنٹرول پر99اور ورکنگ باؤنڈری پر2دفعہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی ۔

2014 کے دوران اب تک لائن آف کنٹرول پر 174اور ورکنگ باؤنڈری پر60بار سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی۔پاکستان اپنے دفاع کے حق کے تحت اس اشتعال انگیزی کا جواب دے رہا ہے تاہم وہ صبر اور ذمے داری کا مظاہرہ کررہا ہے ۔ صورتحال کو کنٹرول سے باہر ہونے سے روکنے کے لیے توقع ہے کہ بھارت بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گا ۔ قابل غور حقیقت یہ ہے کہ بھارتی میڈیا کنٹرول لائن پر گزشتہ ہفتے ہونے والی خونی جھڑپوں کا ذمے دار بغیر کسی جواز کے صرف پاکستان کو ٹھہرا رہا ہے، سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پاکستان مخالف پروپیگنڈا بھی جاری ہے تاہم پاکستان اور بھارت کے فوجی افسروں اور نئی دلی میں بھارتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ موجودہ کشیدگی میں اضافہ قوم پرست نریندرا مودی کی حکومت کی مخصوص پالیسی کے باعث ہوا ۔

بھارتی وزارت داخلہ کے سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے آفس کی جانب سے انھیں واضح پیغام دیا گیا کہ پاکستان کو شدید اور بھاری نقصان پہنچایا جائے ۔ جس کی جھلک بھارتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہے ۔ عہدیدار کے مطابق ہمارے باسز ہمیں پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہ رہے ہیں اور نئی حکومت کا رویہ پرانی حکومت سے یکسر مختلف ہے ۔ پاکستان کے ایک ممتاز دفاعی مبصر کا کہنا ہے کہ مودی کے برسر اقتدار آنے پر جو خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا وہ سچ ثابت ہوا ۔ تاہم مبصرین کے نزدیک دونوں ملکوں میں جنگجویانہ مہم جوئی خطے کے مفاد میں نہیں ۔

جرمن دانشور ڈاکٹر جونسن نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں جانتے ہیں کہ دنیا بہت گندی ہوچکی ہے ،خطے کے وسائل و مسائل کا کوئی شمار نہیں مگر اہل اختیار واشرافیہ کو کچھ کرنا ہوگا ورنہ ہولناک تشدد اور مفادات کے ہولناک مظاہر جنوبی ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے ۔یادش بخیر ، نوم چومسکی کا قول سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان سے جنگ کسی آفت و بربادی سے کم نہیں ہوگی ۔

امید کی جانی چاہیے کہ پاک بھارت تعلقات کی بحالی اور خطے میں امن کے قیام کے لیے پیش رفت ضرور ہوگی۔آیندہ ماہ کھٹمنڈو میں نواز شریف اور نریندر کی مودی کے مابین ملاقات کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، جب کہ بھارتی صدر پرناب مکھر جی نے کہا ہے کہ میں ناروے میں ملالہ اور کیلاش ستھیارتھی کو امن کا مشترکہ نوبل انعام ملنے کی تقریب میں شرکت کا فیصلہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم پر چھوڑتا ہوں ۔

تاہم انھوں نے ایک سوال کے سوال میں کہا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین کشمیر اور دیگر تنازعات کا حل صرف بات چیت ہے، بھارتی اخبار کے مطابق ملالہ یوسف زئی نے تجویز دی ہے کہ نواز شریف اور مودی نوبل انعام کی تقریب میں ایک ساتھ شرکت کریں ۔ بادی النظر میں اس معصومانہ اور بے لوث خواہش کے پیچھے پر آشوب خطے میں ناگزیر امن کی فاختہ کی کیسی بے تاب تمنا تڑپ رہی ہے، پاک بھارت سیاسی ارباب اختیار کو اس پر توجہ دینی چاہیے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں